آج کے موضوعِ تحریر کو بیان کرنے کے لئے طویل وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ موجودہ وقت میں سائنسی ترقی کے باعث ہر عام و خاص میڈیا سے شناسائی رکھتا ہے خصوصاً انٹرنیٹ کی بدولت عام افراد کی سوشل میڈیا سے وابستگی کے رجحان کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ریڈیو اور ٹیلی ویڑن ایک عام انسان کو میڈیا سے جوڑے ہوئے تھا ۔ ٹیلی ویژن کا استعمال آج بھی زور و شور سے جاری ہے ۔میڈیا کی ہر ایک قسم اپنی اہمیت کی حامل ہے اور اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہے۔ میڈیا کے باعث دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رہنا ممکن ہوا ہے ۔ کسی بھی ملک کا میڈیا اسکی تہذیب و تمدن کی مکمل عکاسی کرتا ہے ۔کوئی ملک دنیا کے نقشے پر مثبت یا منفی تاثر سے نمودار ہوتا ہے اس کا انحصار دیگر عوامل کے ساتھ میڈیا پر بھی ہوتا ہے۔ مزید آسان الفاظ میں میڈیا کو آئینے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو ہمارے ملک کے مکمل عکس سے دنیا کو روبرو رکھے ہوئے ہے۔دیگر ممالک کی طرح پاکستانی میڈیا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہوئے وطن عزیز کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ چاہے وہ الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا پاکیزہ فریضہ صحافت بخوبی انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستانی میڈیا شب و روز عوام کی خدمت میں مگن دکھائی دیتا ہے ۔ بہت سارے ایسے پروگرامز نشر کئے جاتے ہے جو معاشرے میں موجود خرابیوں کو ابھارتے ہیں چند افراد پر مبنی ایک ٹیم وطن عزیز میں موجود شرپسند عناصر کے گھناونے دھندوں کو عوام اور دیگر اتھارٹیز کے سامنے لانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دیتی ہے ۔ پھر کسی ٹیلی ویڑن سکرین پر چلنے والی سرخی یا کسی اخبار کے پہلے صحفے پر چھپنے والی ولولہ انگیز خبر اعلی حکام کو نوٹس لینے پر مجبور کر دیتی ہے اور ادارے حرکت میں آتے ہیں۔یہ کام تو ہمارے اداروں کا ہے کہ ملک کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے کالے کرتوتوں سے پردہ فاش کیا جائے اور انھیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے لیکن صد افسوس کے ملک کے خزانوں پر اربوں روپوں کا بوجھ بننے والے اداروں کی ڈیوٹیز بھی کافی حد تک میڈیا سر انجام دے رہا ہے۔ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں۔ماقبل جو کچھ تحریر کیا بیشک درست ہے مگر اس کہانی کا دوسرا پہلو بھی بہت گھناونا ہے۔چند ماہ قبل جب ملکی سیاست سڑکوں پر آ پہنچی تھی۔عوام الناس کا ایک جمِ غفیر دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے مطالبات لیے سراپاحتجاج ہوا تو پاکستانی میڈیا صداقت کے مختلف معیار لیے عوام کے روبرو ہوا۔کچھ نامور نجی چینلز نے مکمل طور پر عوام کو ظالم اور ڈنڈہ بردار شر پسند جبکہ حکومت کو مظلوم اور امن پسند ظاہر کیا اور دیگر معروف نجی چینلز نے کہانی بالکل برعکس دکھائی ان کے مطابق عوام پر امن احتجاج کر رہی تھی جبکہ حکومتی اہلکار عوام پر ڈنڈے برساتے شیلنگ کرتے نظر آئے۔اس سے بھی زیادہ حیرانگی اس وقت ہوئی جب سرکاری چینل کی طرف نگاہ اٹھی کچھ دیر کے لیے یہ گمان ہو گیا کہ میں ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کا باشندہ ہوں جہاں پر دور دور تک مسائل کا نام و نشان تک نہیں۔ملک بلکل متوازن ہے کوئی سیاسی ہلچل نہیں حیرانگی کے ساتھ ساتھ شرم بھی محسوس کی کہ عوام کے ٹیکس پر چلنے والا چینل عوام ہی کو نیندِ خرگوش سلائے ہوئے ہے اور مکمل سچ سے محروم رکھے ہوئے ہے۔سچ کے دعوے دار مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائی جانے والا سچ بھی مختلف تھا جبکہ سچائی تو یکتا ہوتی ہے تو کیا ہمارا میڈیا صحافت کے پاکیزہ فرائض صحیح معنوں میں ادا کر رہا ہے اس کا جواب آپ قارئین پر چھوڑ رہا ہوں۔
یہاں ضمیر بکتے ہیں یہاں انسان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو یہاں امام بکتے ہیں
یہ شعر ان الفاظ کی مکمل عکاسی کر رہا ہے جنہیں میں تحریر نہیں کر سکتا جس ملک میں سولہ سالہ قانونی طور پر نابالغ بچہ اپنی معلمہ کے عشق میں خودکشی کر لے اس ملک کے الیکٹرونک میڈیا پر چوبیس گھنٹے چلنے والے مواد کا معیار کیا ہو سکتا ہے نیچ یا نیچ تر۔ عین اسلامی قوانین کے اطلاق اوراسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کیلئے بنائے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا میڈیا تو مغربی تہذیب کے رنگ بکھیرتا دکھائی دیتا ہے رائی کا پہاڑ بنانے کا فنِ عظیم بھی ہمارے میڈیا اور میڈیا سے متعلقہ افراد میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ہاتھ میں مائیک لیے اپنے آپ کو ایک پولیس آفیسر سمجھتے ہوئے کسی بھی عوامی جگہ پر کئی افراد کے سامنے کسی ایک کمزور شخص پر ہلہ بول دیا جاتا ہے ادب تمیز عزت کے معانی سے ناواقف کوئی اینکر پرسن انسانیت کی حدود سے نکلنے لگتا ہے پھر کسی کو تھپڑ رسید ہوتے ہیں اور کس کے نصیب میں عوام کی طرف سے گالیاں ہی آتی ہیں خدارا اپنے چینلز کی محض ریٹنگ کی خاطر عوام کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھلواڑ بند کیجئے۔تنقید ضرور کیجئے مگر تنقید برائے اصلاح کے سنہرے اصول کو اپنا لیجئے اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی بات کرتا چلوں اس پلیٹ فارم کو دینی سیاسی اور معاشرتی بیداری کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے اور جس دن واقعتاََ اس امر کے فروغ کو یقینی بنایا گیا اس دن میڈیا کی دیگر اقسام کی مقبولیت تنزلی کا شکار ہو جائے گی میڈیا آزاد ہے آزادی کا جائز فائدہ اٹھایا جائے اور پوری قوم سے دعا کی اپیل کرتا ہوں کہ آزادیِ کشمیر کے ساتھ ساتھ سرکاری چینلز کی آزادی کیلئے بھی دعا کی جائے جو ہماری جیبوں سے چلتے ہیں اور چونا بھی ہمیں لگاتے ہیں۔{jcomments on}
107