میڈے میڈے کی آواز سنتے ہی ایئر ٹریفک کنٹرولر نے ایمرجنسی الرٹ جاری کر دیا تھا اور پھر فلائیٹ آفیسر سےمستقل رابطے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ جہاز نیپال کی ییتی ایئر لائن کی فلائٹ 691 تھی اس فلائٹ نے کھٹمنڈو سے پوکھرا جانا تھا اس کا لینڈنگ کا وقت تھا یہ فلائٹ 146 کلومیٹر کا سفر 35 منٹ میں طے کر کے پوکھرا ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کو تھی۔ یہ 15 جنوری 2023 کا دن تھا صرف 500 میٹر کی بلندی پر رنوے سے چند کلومیٹر پیچھے میڈے میڈے میڈے کی آواز اور پھر چند ساعتوں میں جہاز زمیں بوس ہو چکا تھا۔ اس جہاز میں موجود 68 مسافر اور چار کرو ممبر تھے جو لمحہ بھر میں جل کر خاکستر ہو گئے۔قارین کو بتاتا چلوں میڈے میڈے ایک کوڈ ورڈ ہے یہ ایئر ریڈیو کے ذریعے مختصر ترین کمیونیکیشن ہے جس کا مطلب ہے کہ جہاز انتہائی خطرے میں ہے۔
ییتی ائیر لائن کے اس جہاز کے کاکپٹ میں موجود ایک کیپٹن جس کا نام کیپٹن کمل تھا ایک لیڈی معاون پائلٹ جو فرسٹ آفیسر انجوکے نام جانی جاتی تھی۔ اس حادثے کے بعد جہاز کے خاکستر ملبے سے بلیک باکس ڈھونڈ لیا گیا ۔ بلیک باکس کا رنگ بلیک کے بجائے نارنجی اور سرخی مائل ہوتا ہے۔ جس وجہ سے اسے جلے ہوئے ملبے میں با آسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ بلیک باکس تین تہوں پر مشتمل ہوتا ہے پہلی تہہ میں اسٹیل اور ٹائٹینیم ہوتی ہے دوسرا انسولیشن خانے کی صورت میں موجود ہوتا ہے جبکہ تیسری تہہ باکس کو شدید آگ اور حرارت سے محفوظ رکھنے میں کام آتی ہے۔ بلیک باکس کی ان تین تہوں کی وجہ سے یہ باکس جہاز کے جل جانے کے باوجود محفوظ رہتا ہے۔ اس بلیک باکس میں دو طرح کے ڈیٹا لاگر موجود ہوتے ہیں ایک فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر جسے (ایف ڈی آر) جس میں فلائٹ کے آپریشن کا مکمل ریکارڈ اپڈیٹ ہوتا رہتا ہے جبکہ دوسرا کاکپیٹ وائس ریکارڈر یعنی (سی وی آر) کہلاتا ہے۔ جس میں کاکپٹ میں کی گئی تمام گفتگو اور آوازیں ریکارڈ ہوتی ہیں۔ ان تمام معلومات کے بعد قارئین کو بتاتا چلوں کہ فلائٹ691 کے اس حادثاتی فلائٹ کے بلیک باکس کو جب ڈی کوڈ کیا گیا تو وائس ریکارڈ سے پتہ چلا کہ کاکپٹ میں کیپٹن کمل اور فرسٹ آفیسر انجو نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ ریکارڈڈ گفتگو کچھ یوں تھی۔
1) کیپٹن کمل۔۔۔ گیئر ڈاؤن۔۔۔۔۔۔ فرسٹ افسر انجو۔۔۔ چیک۔۔۔۔
2) کیپٹن کمل۔۔۔ ایلٹیچوڈ 500۔۔۔ فرسٹ افسر انجو۔۔۔ چیک۔۔۔
3) کیپٹن کمل۔۔۔ انجن 25پرسنٹ ۔۔۔۔ فرسٹ افسر انجو۔۔۔ چیک۔۔۔۔
4)کیپٹن کمل۔۔۔ فلیپ 30 ڈگری۔۔۔۔فرسٹ افیسر انجو۔۔۔۔ چیک۔۔۔
اس کمیونیکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا جبکہ فائنل فائنڈنگ میں پتہ چلا جب فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (ایف ڈی آر) ڈی کوڈ کیا گیا تو پتہ چلا کہ آخری انسٹرکشنز فلپ 30 ڈگری جسے فرسٹ آفیسر انجو نے چیک کیا تھا وہ لیور 30 ڈگری پر کرنے کے بجائے اس وقت فیول انجن کا لیور بند کیا گیا تھا۔ اور یوں انجن کو فیول نہ ملنے پر جہاز لینڈنگ سے چند سیکنڈ پہلے صرف 500 میٹر بلندی سے نیچے زمین پر گر کر تباہ ہو گیا۔ جبکہ فلیپ 30 کی بجائے 15 ڈگری پر تھا۔(جہاز کے پروں کے ساتھ اضافی ونگز ہوتے ہیں جو جہاز کو ٹیک اف کرنے اور لینڈنگ کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں)
یہ سارے ریگولیشنز ایکٹ، آرڈیننس یا ایس او پیز کسی بھی کام کو سرانجام دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ تا کہ کم سے کم ریسورسز کو استعمال کرتے ہوئے کام کو بہترین اور خوش اسلوبی سے مکمل کیا جائے۔۔ ان تمام ایکٹ، آرڈیننس، ریگولیشنز کے باوجود دو تجربے کار پائلٹ اپنی اور اپنے ساتھ 68 مسافروں کی جان نہیں بچا سکے۔!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیکا ایکٹ 2025 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے. حکومت پاکستان اس ایکٹ کے ذریعے پاکستان میں سوشل میڈیا کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتی ہے صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ایکٹ پر اعتراض کر رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں پیمرا یعنی (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) موجود ہے تو پیکا ایکٹ منظور کرانا کیوں ناگزیر تھا۔ دوروغ برگردنِ راوی، پیمرا کو پیمرا کی انتظامیہ نہیں چلاتی بلکہ اس کو کوئی اور یعنی خلائی مخلوق چلاتی ہے۔ اس پیکا ایکٹ کو بھی کہیں اور سے آپریٹ کیا جائے گا۔ اگر خلائی مخلوق مصروف رہی تو یہ کام بری یا بحری مخلوق کو بھی دیا جا سکتا ہے۔۔۔ قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پیکا ایکٹ کے علاوہ بہت سے ایکٹ ارڈیننس اور ریگولیشنز پاکستان میں پہلے ہی موجود بلکہ لاگو ہیں۔ جن میں سات ایکٹ، نو آرڈیننس اور آٹھ ریگولیشنز ہیں۔
پاکستان کو آزاد ہوئے 78 سال گزر چکے ہیں اس کے باوجود پاکستان یا پاکستان کی اکنامی کیوں ہر کچھ عرصے بعد ڈیفالٹ کی پوزیشن میں آجاتی ہے۔ ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں انڈسٹریز، ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹرز کو فروغ دینے کے بجائے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے میں صرف کر دیں گے تو پاکستان کو ان زبوں حالیوں سے کون نکالے گا۔ کیا ہمیں پارلیمنٹ اور اپنے مقتدرہ اداروں کے بلیک باکسز کو ڈی کوڈ نہیں کرنے چاہیئں۔۔ کاش کہ ہم ان کے بھی ڈیٹا لاگرز یعنی ایف ڈی آر اور سی وی آر جس میں تمام گفتگو اور آپریشنز موجود ہوں، ہم سن اور دیکھ سکیں۔
اب 24 کروڑ عوام اپنے وطنِ عزیز کے جہاز کو ییتی ائیر لائن کی فلائیٹ کی طرح کریش ہونے سے پہلے ایک مرتبہ ان کے بلیک باکسز ڈی کوڈ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ان مقتدرہ اور پارلیمنٹ میں موجود کوئی کیپٹن کمل اور فرسٹ افیسر انجو جیسے کردار تو موجود نہیں جن کی وجہ سے جانے یا انجانے میں 24 کروڑ عوام کی جانوں کو خطرہ ہو۔
(جمیل احمد)