درست کہا‘سچ کہا‘اور ڈنکے کی چوٹ پر کہاجاوید اقبال راجا صاحب جو کچھ آپ نے کہا۔واقعی حکیم عبدالروف کیانی کا غیر حکیمانہ فیصلہ کہ اپنے گوجرخان کو ادبی دنیا میں متعارف کرانے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہر کوئی دیکھتا ہے
پر اس دیوانے نے جی ٹی روڈ سے متصل انتہائی قیمتی زمین پر کروڑوں روپے خرچ کر کے بنایا بھی تو کیا؟ادیبوں شاعروں کے لئے ”گوجرخان ٹی ہاؤس“ کتابیں پڑھنے والے مطالعہ کے شوقین حضرات کے لئے فکشن ہاؤس جہاں ہر پبلشر کی کتاب آدھی قیمت پر دینا شروع کردی
گوجرخان کی انتظامیہ کو شہر میں خواتین کے لئے الگ لائبریری بنا کر دینے کے سب سے مشکل مرحلے کو حل کرنے کی ذمہ اپنے سر اٹھا لی پچیس لاکھ کی کتابیں صرف بارہ لاکھ میں مہیا کر کے خواتین کی لائبریری کتابوں سے بھر دی جب فکشن ہاؤس گوجرخان کے افتتاح کا موقع آیا تو پاکستان بھر کے نامور شعراء و ادبا کو پوٹھوہار کے دل گوجرخان میں لا کھڑا کیا اور بینڈ باجے اور شہنائی کی دھن پر وہ استقبال کیا
کہ اس دن ہر قلمکار اپنے آپ کو دلہا تصور کرنے لگادسمبر 2023 میں ہفتہ وار ادبی بیٹھک کی طرح ایسے ڈالی کہ تادم تحریر کوئی ہفتہ پروگرام کے بغیر نہیں گذرا۔ان حکیم صاحب کا ایک اور بہت بڑا غیر حکیمانہ فیصلہ اس خاکسار(مبین مرزا) کو اس سارے غیر حکیمانہ پروگرام کا منتظم بنا دیا،اس شخص کو
جو خود کہتا پھرتا ہے کہ
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
جو مصلحتاً بھی کسی زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
واقعی غیر حکیمانہ سوچ اور غیر دانشمندانہ سوچ والے روف اور مبین جب ایک پیج پر اکھٹے ہو جائیں
تو پھر ایسی ہی ان ہونیاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ یہ سوہاوہ میں بیٹھے ایک عمر رسیدہ شخص محمد زمان اختر کو خراج تحسین پیش کرنے گوجرخان ٹی ہاؤس میں محفل سجا لیتے ہیں اسکی مشہور زمانہ نظم”پنج پتراں نی ماء“میں بیان کردہ سچائی کو زمانے کے سامنے حقیقی شکل میں پیش کرنے کے لئے اولڈ ہاوس کے ان بزرگوں کو پروگرام کا ”مہمان خصوصی“ بناتے ہیں جن کو انکی اولادوں نے گھروں سے نکال دیا
اور وہ اپنی زندگی کے باقی دن پورے کرنے کے لئے اولڈ ہاوس میں دن گن گن کر گذار رہے ہیں یہ کبھی مہراب خاور کو خراج تحسین پیش کرنے لگ جاتے ہیں جس نے رومی و اقبال کے کلام کا منظوم ترجمہ کر کے انکے افکار عام لوگوں تک سہل انداز میں پہنچایا،جس کی لکھی کتابوں کی تعداد جب اس پروگرام کے توسط سے سوشل میڈیا پر ائی تو فون کالز اور میسجز کا تانتا بندھ گیا کہ یا حیرت ہمارے گوجرخان میں ستر سے زائد کتابیں لکھنے والا بیٹھا ہے یہ کبھی شریف شاد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے پوٹھوہاری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کر کے پوٹھوہاری زبان کو دنیا بھر کی زبانوں میں ایک منفرد مقام عطا کردیا
تو کبھی جاوید اقبال راجا کو پروگرام میں بلا کر جھوٹے ماہرین تعلیم کا پردہ چاک کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ ماہر تعلیم اسے کہتے ہیں جسکی لکھی کتابیں وفاقی تعلیمی اداروں، کشمیر، گلگت، بلتستا ن اور پاک فوج کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ او سر پھرو خراج تحسین پیش کرنا ہے
تو باقی قلمکاروں کی طرح ان لوگوں کو پیش کرو جو تم کو کسی اچھے اور مہنگے ترین ہوٹل میں سیخ کباب،بون لیس اور دیگر مزے مزے کے کھانے کھلائیں۔پیش کرو نا خراج تحسین زمین کا حسن برباد کرکے سوسائٹیاں قائم کرنے والوں کوقبضہ مافیا کو‘سمگلروں کو‘نئی نسل کو منشیات جیسی سہولت فراہم کرنے والوں کو‘پھر دیکھو شہر میں اپنی عزت‘پھر پاو سوشل میڈیا پر اپنی تعریفوں سے مزین بھر پوسٹیں‘پھر کہلاو شہر کے معزز ترین لوگ اوے
مبین مرزاتے حکیم عبدالروف کیانی توانوں کدے عقل نیں آنڑیں۔