مطالعہ انسان کے لیے اخلاق کا معیار ہے 206

مطالعہ انسان کے لیے اخلاق کا معیار ہے

!اس گلشنِ کائنات میں وہ لوگ توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جو علم و ادب کی دنیا سجاتے ہیں۔کتاب دوستی کی روایت زندہ رکھنے کے لیے کتب خانوں کا قیام اور تحقیق و جستجو کے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔کتب خانوں میں بیٹھ کر علم کے قیمتی موتی تلاش کرتےاور زندگی کی رونق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔علم کی روشنی تو ایسی متاع ہے جس سے سینے روشن اور منور ہوتے ہیں۔ماہرین تو کہتے ہیں کہ علم ایسی روشنی ہے جس سے شعور بیدار ہوتا اور فکر کے زاویے کشادہ ہوتے ہیں۔احترام انسانیت اور حسن اخلاق کی خوبصورتی میں تعلیم کا کردار اہم ہوتا ہے۔

انسان کی شخصیت اور سیرت و کردار کی بہترین تعمیر تعلیم کے عمل سے ہوتی ہے۔علم و ادب کا کمال ہی تو انسانی رویوں کو فروغ دیناہے۔علم و ادب کی دنیا میں رہنا تو انسان کے رویہ و کردار کو اس قدر بلند کر دیتا ہے کہ صرف ایک ہی فکر رہتی ہے بقول شاعر:۔ ” اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی“ زندگی کے مفہوم سے آگاہی اور مقصد حیات کے آئینے میں حقیقی مفہوم سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور کارِجہاں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔مسکراہٹ تو دلوں کو فتح کرنے کے لیے بہت بڑی قوت ہے جو لوگ مسکراہٹ اور تبسم سےزندگی بسر کرتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔یہ انداز انسان تعلیم کے زیور سے ہی حاصل کر پاتا ہے۔

اس لیے معماران قوم کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ قومی سرمایہ کی تربیت ایسے خطوط پر کریں جن سے طلبہ کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو بلکہ تکمیل حیات کی تمنا بھی پیدا ہو۔جہان کے لیے یہی لوگ فائدہ مند بھی ہوں۔بقول شاعر:۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے ادیب،شاعر،مقرر،خطیب ،معلم،کالم نگار،اداریہ نویس،تبصرہ نگار اور دیگر قیمتی ہستیاں علم و جہان کی دنیا کے رجحان میں اضافہ کرنے کے لیے بہترین اور مثالی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ادیب،شعراء،نثر نگار اپنے قلمی فن کی بدولت معاشرے اور سماج میں اچھا ماحول پیدا کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔علم وادب کی دنیا میں محبتوں بھرا چمن سجانے میں خوبصورت کردار ادا کرتے ہیں

۔اس وقت ضرورت بھی علم و ادب کے بہتے دریا اور سمندر سے استفادہ کرنے کی ہے۔علم و حکمت کے چراغ روشن ہونے سے تاریک دلوں میں روشنی اور اجالا ہوتا ہے۔جس سے اطمینان اور سکون کی متاع عزیز ہاتھ آتی ہے۔ادیبوں اور مصنفین کی با مقصد کتب کے مطالعہ سے زندگی کے چمنستان میں بہار دستک دیتی ہے۔بزم خیال کے آنگن میں پھول کھلتے اور غنچے مسکراتے ہیں۔سماج اور معاشرے میں اطمینان اور چین بحال ہوتا ہے۔اچھی سوچ اور اچھے خیالات کی آئینہ دار کتب کس قدر مفید ہوتی ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

ماہرین تعلیم کے مطابق مثبت سوچ اور فکر کی دولت سے لکھی کتابیں اور تحریریں علم و ادب کا ذخیرہ ہوتی ہیں۔اہل فکروفن اور دانشوروں کے خیالات کی بلندی سے انقلاب رونما ہوتا ہے۔یہ انقلاب ہی تو سماجی اور معاشرتی زندگی کے اصولوں کو فروغ دیتا ہے۔قوم کے نونہالان کتب کے مطالعہ سے علم و حکمت کے موتی حاصل کرتے زندگی کو سنہری بنا سکتے ہیں۔ادبی جہاں میں رونقیں ذوق مطالعہ اور کتب بینی سے سے برقرار رہتی ہیں۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کتب علم و ادب کا مخزن ہوتی ہیں۔ان کے مطالعہ اور اجلے اجلے اوراق سے نہ صرف بے چینی دور ہوتی ہے بلکہ مطالعہ کتب کا ذوق بھی پختہ ہوتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطالعہ سے کیا ملتا ہے؟ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے بہت خوبصورت انداز سے جواب پیش کیا”مطالعہ انسان کے لیے اخلاق کا معیار ہے“زندگی کے رنگ اور روپ کس قدر انوکھے اور نرالے ہیں۔انسان جب علم و ادب کی دنیا سے ذرا فاصلے پر چلا جاتا ہے تو منزلوں کے نام و نشان گم ہو جاتے ہیں۔زندگی کا سفر آسان اور خوشحال اسی وقت ہوتا ہے جب علم کی دولت اور حکمت کے موتی اس کی جھولی میں ہوں۔وقت کی قدروقیمت کا احساس بھی اور پھولوں کی خوشبو کا احساس بھی علم و ادب کی دنیا میں تلاش حقیقت سے بیدار ہوتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں