265

مزدوری کی پہلی دیہاڑی

آج مئی کی پہلی تاریخ کی صبح حسب روٹین گھر سے نکلا تو دیکھا وہ مزدور آج بھی کل کی طرح مصروف ہے

جس کے نام پہ دنیا چھٹی منارہی ہے بہت سے گندم کی کٹائی و گہائی میں لگے ہیں اور کئی

گینتی بیلچہ لیے کھدائی اور کچھ ٹرالیوں پہ بلاک ریت وکرش لوڈ کرتے نظر آئے لیکن اس کے باوجود بھی چوک میں سینکڑوں بوڑھے

اور نوجوان مزدور درانتیاں اور بیلچے اٹھائے ایک لمبی قطار میں کھڑے و بیٹھے مزدوری ملنے کا انتظار کر رہے تھے میں نے گاڑی سڑک کی ایک جانب روکی تو دونوں جانب سے مزدوروں کی

ایک بڑی تعداد میری جانب لپکتی ہوئی نظر آئی لیکن میں مزدور کی ضرورت نہ ہونے کی معذرت چاہتے ہوئے گاڑی کے شیشے بند کیے اور ماضی کے ایام کے چند تلخ لحموں کی یادوں میں کھو گیا

غالباً وہ بھی 1992ء کا یکم مئی کا دن تھا جب میں میٹرک کے امتحان سے چند روز پہلے ہی فارغ ہوکر گاؤں میں موجود بوہڑ (برگد)کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا پرانی اخبارکا تراشہ پڑھ رہا تھا

کہ رشتے میں ماموں استاد فضل کریم جو ڈرائیور تھے نے ٹریکٹر ٹرالی میرے پاس روکتے ہوئے کہا کہ آپ فارغ لگتے ہیں میرے ساتھ آؤشام تک چار پیسے ہوجائیں گے

میں خوشی سے چھلانگ لگاتا ہوا ٹرالی پہ چڑ دوڑا سوار ہوتے ہی کھڑا ہوکر ہاتھ میں پکڑے اخباری تراشے کو دوبارہ پڑھنا شروع کردیا حتیٰ کہ ٹرالی آدھے پونے

گھنٹے کے سفر کے بعد اینٹوں کے بھٹے پہ جا پہنچی ماموں استاد بولے نیچے اترو یہ چاٹھے پہ لگی دوہزار اینٹ آپ دو بندوں یعنی دوسرے مزدور کے ساتھ مل کر گنتی کرکےلوڈ کرنی ہے اور پھر مالک کے گھر جاکر ان لوڈ بھی کرنی ہے

جس کی مزدوری چالیس روپے ملے گی یعنی فی کس مزدوری بیس روپے ہوگی دن میں 3 عدد پھیرے (ٹرپ )لگائے سہ پہر تین بجے ہوٹل سے کھانا کھایا بڑا مزہ آیا شام کو ساٹھ روپے

مزدوری لیکر گھر پہنچا والدہ محترمہ کو پیسے دینے لگا تو والدہ ہاتھوں کی انگلیوں پہ بنے زخموں سے خوں رستا دیکھ کر یک دم سکتے میں چلی گئیں روپے ادھر ہی پڑے رہے ماں دوڑتے ہوئے

کمرے میں گئیں پرانے کپڑے پھاڑ کر انگلیوں اور انگوٹھوں پہ آئے زخموں پہ پٹیاں باندھ دیں کچھ کہے و بولے بغیر خاموشی سے میری چارپائی کی ایک جانب بیٹھ گئیں اس رات کو درد کی وجہ سے میں سویا نہ میری ماں سو سکی۔


اس بات کو ہوئے آج تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن مزدور کا درد آج بھی مجھے اسی طرح یاد ہے ویسے بھی میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں جس کی وجہ سے میرے دل میں مزدور کی

عزت و احترام اور درد آج بھی ہے اور پھر عملی زندگی میں مجھے ایسے کاروبار سے وا سطہ پڑا جس کا اوڑھنا بچھونا ہی مزدور سے ہے وطن عزیز میں غربت کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری ہے

اس کا فائدہ آجر اٹھارہاہے مزدور سے زائد وقت اور سخت مزدوری کی اجرت انتہائی کم ادا کی جاتی ہے جس کی بناء پر ہمارا مزدور زیادہ معاوضے اور اجرت کی خاطر اپنے والدین بیوی بچوں کو چھوڑ کر

لاکھوں روپے ایجنٹوں کو دیکر بیرون ممالک بلخصوص عرب امارت میں جانے کو ترجیح دے رہا ہے اور وہاں موسم کی سختیوں اور قانونی پیچیدگیوں ومسائل کو برداشت کیے ہوئے ہیں

2018ء میں حج کی سعادت کے لیے سعودی عرب گیا تو بڑی عمارات میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو دھوپ اور سخت گرمی میں کام کرتے ہوئے دیکھا تو دلی دکھ ہوا

کہ اگر اپنے وطن میں ان کو کام کی مناسب اجرت ملتی تو ان کو دیار غیر میں آکر اتنی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اس کا اثر ہوا کہ میں نے فوری طور پر اپنے کاروبار سے وابستہ مزدور کی

مزدوری میں اضافہ کرنے کی اجازت دی اس کی برکت سے ایک تو ہمیں کھبی بھی مزدور نہ ملنے کا مسئلہ درپیش نہیں آیا اور مزدور بھی شام کو اچھی خاصی مزدوری کماکر اپنے گھروں کو جاتے ہیں

یکم مئی کو بڑی کاروباری کمپنیوں فرموں اور سیاستدانوں کے زیر اہتمام ملک بھر میں سیمیمنارز اور ریلیوں کا انعقاد ہوتا ہے جن کی خبریں میڈیا کی زینت تو بنتی ہیں

لیکن مزدور کی مراعات اور ان کو سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے کوئی عملی جامہ نہیں پہنایاجاتا یہی وجہ ہے کہ آجر کی دولت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ اور اجیر ہر روز غربت کی چکی میں پستا چلا جارہاہے

۔
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں