119

مزدورں کے حقوق کیلئے عملی اقداماتکی ضرورت/راجہ طاہر

صبح سویرے اپنے کسی کام کی غرض سے جاتے ہوئے بڑے چوک میں مزدوروں کے جھمگٹوں کو دیکھا جوکسی گاڑی کے رکنے پر اس کی طرف یوں لپکتے ہیں جسے کہ وہ آدمی جو گاڑی میں ہے ان کو مزدوری کے لئے اپنے ساتھ لیجائے گا کئی بیچارے چپ چاپ بیٹھے کسی کے آنے اور انھیں اپنے ساتھ مزدوری کی غرض سے لیجانے کی دعائیں مانگ رہے تھے انکے چہروں سے انکی پریشانی صاف نظر آرہی تھی ان کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے سوچا کہ یکم مئی جسے ہم مزدوروں کا عالمی دن مناتے ہیں اس بارے میں کچھ پوچھ لیا جائے کچھ مزدورمجھے پڑھے لکھے نظر آئے سوچا ان سے بات کر لوں جب میں ان کے پاس گیا تو کئی اور مزدور بھی میرے گرد جمع ہو گئے کہ شاید کسی کو مزدور کی ضرورت ہو جب انھیں میں نے بتایا کہ مجھے مزدور کی ضرورت نہیں تو پیچاے ادھر ادھر ہو گئے البتہ جن سے میرے بات ہوئی تو ان کو پتا ہی نہیں تھا کہ شکاگو کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا تھا اور یوم مئی کا ان کو کیا فائدہ ہوتا ہے کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ یوم مئی کیوں منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے باتو ں باتوں میں مجھے پتا چلا کہ ان میں سے کئی اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں جو روزگار نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری کی غرض سے یہاں کھڑے ہیں ان کے کئی کام کی باتیں بھی پتا چلیں کہ کئی لوگ ان کو یہاں سے لیجانے کے بعد ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں جو اجرت یہاں مقرر کی جاتی ہے وہ انھیں دی جاتی کچھ لوگوں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت اچھے بھی ہیں جو ہمیں یہاں دن میں آتے جاتے کھانا مفت دے جاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ مزدور وں کے عالمی دن سے ان کا کیا مطلب اگر کام کریں گے تو مزدوری ملے گی اگر نہیں کریں گے تو کوئی نہیں دے گا حکومت جو کہتی ہے وہ وقتی باتیں ہو تی ہیں جو صرف سیاسی جلسوں میں کی جاتی ہے یعنی رات گئی بات گئی ایسے میں باتیں کرتے ہوئے ان کے چہروں سے اضطراب کی جو کیفیت ابھر رہی تھی وہ ناقابل بیان ہے وہاں سے جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ہم لوگ ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن بڑے جوش خروش کے ساتھ مناتے ہیں اس دن مزدورکی عظمتوں کو بیان کیا جاتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مزدوروں کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی وکامرانی حاصل نہیں کر سکتا جس ملک نے بھی ترقی حاصل کی ہے وہ صرف اور صرف مزدوروں کی کام میں لگن اور محنت سے کی ہے مگر ،اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ یہاں پر مزدوروں کا جو استحصال بزنس مین اور صنعتکار کر ہے ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے اور اس سارے پراسس میں نیچے سے لیکر اوپر تک لوگ شامل ہیں جو خود کو مزدور دوست کہتے کہتے نہیں تکھتے مگر دوسری طرف وہی لوگ ان بیچارے مزدوروں کا بری طرح استحصال کرتے ہیں اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیں کہ کچھ سال پہلے مزدور کی ماہانہ تنخواہ یا اجرت چھ ہزار مقرر کی گئی جسے بعدازاں آنے والی حکومت نے نو ہزار ماہانہ تک کرنے کا اعلان کیا مگر آج بھی ماضی کی طرح صورت حال مختلف نہیں کوئی بھی ایسا پرائیویٹ ادارہ نہیں ہو گا جو مزدور کو اس کی پوری اجرت دیتا ہو گا آج بھی فیکٹریوں میں غریب مزدور کا استحصال ہو رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں وجہ کیا ہے؟وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے پوچھنا ہے وہ وہاں جا کر اے سی کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ جاتے ہیں ان کے لئے فیکٹری مالکان کی طرف سے ایسی بڑی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ غریب مزدورکے دکھ درد کو دل سے نکال دیتے ہیں اور اپنے عیش آرام کے سوا ان کو کچھ نظر نہیں آتا پھر ہوتا کیا ہے جاتے ہوئے فیکٹری مالکان ان کی جیب کو خوب گرم کر دیتے ہیں پھر سب اچھا کی رپورٹ اوپر صاحب کی ٹیبل پر پہنچ جاتی ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے مزدوروں کو پورا معاوضہ مل رہا ہے سو وہ خوشحالی اور ترقی کے نعرے لگانا شروع کر دیتی ہے وزیر خزانہ ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ ملک میں مزدور خوشحال ہو رہا ہے اور غربت کم ہو رہی ہے پھر اچانک سے ایک دن کسی مزدور کی بچوں سمیت خود کشی کی خبر تمام صورت حال کو ہیبت ناک بنا دیتی ہے کہ اگر مزدور خوشحال ہیں اور ان کو پورا معاوضہ مل رہا ہے زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں جن میں صحت ،تعلیم ،گھر وغیرہ مل رہا ہے تو یہ خود کشی کیوں ؟ایسے میں حالات بہتر ہوں یہ ہو نہیں سکتا حکومت کی اتنی کمزوور پالیسیوں کی وجہ سے اس دور میں نہیں بلکہ ہر دور میں مزدور کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے اگر کوئی فیکٹری اونر پورا معاوضہ دے بھی رہا ہے تو اس کے بدلے میں مزدور کے ڈیوٹی کے اوقات کو اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ پورا معاوضہ بھی اس کے کام کے لحاظ سے کم ہو جاتا ہے المیہ تو یہ کہ ہم لوگ اس دن کی مناسبت سے دو چار تقریبات کا اہتمام کر لیتے ہیں کالم نگا ر دو چار تحریریں لکھ کر سمجھتے ہیں کہ انھوں انے اپنا کردار ادا کر دیا حکومت اس دن مزودر کی اجرت میں دو چار سو روپے کے اضافے کا علان کر دیتی ہے جس پر عمل درامد کرانا تو شاید کسی تیسری مخلوق کا کام ہو جیسے اس سے اگلے دن اخباارت میں بڑی بڑی تقریبات کی تصویریں اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ ہم اپنے مزدوروں کا بڑا خیال رکھنے والی قوم ہیں ہم جتنا کام اپنے مزدوروں کے لئے کر رہے ہیں شاید دنیا کا کو ئی بھی ملک نہیں کر رہا مگر حقیقت کو اگر دیکھا جائے تو بہت تلخ ہے مزدور کو دو وقت کی روٹی کے لئے کتنی تگو دو کرنی پڑتی ہے اس کے ماہانہ اخراجات اس کے لئے پورے کرنے بہت گراں نظر آتے ہیں اگر اس کے گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو بیچاری کی جان پر بن جاتی ہے حکومت دعوے تو کرتی ہے مگر ان پر علمدرامد کرانا بھول جاتی ہے یا کروا نہیں سکتی دوسری طرف سرمایہ دار طبقہ اتنا بااثر ہو چکا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کو وہ اپنے اثر رسوخ سے بڑی آسانی سے بے آثرکر دیتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مزدور کی عظمت اور محنت کو سمجھے اور ان کے لئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں تاکہ مزدور کو بھی زندگی کی تمام بنیادی سہولیات میسر ہو سکیں صرف پالیساں بنانے سے یا ، یوم مئی منانے اور دو چار تقریبات منعقد کرانے سے ان غریب مزدوروں کے حالات زندگی کو نہیں بدلا جاسکتا ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں