68

محبت کا دن /ظہیر احمد چوہدری

کل چودہ فروری کو محبت کا دن جوش و خروش سے منایا گیا ، مذہبی رکاوٹ ، پٹرول بحران کے باوجودنوجوان خوب ترنگ میں نظر آئے ، ایک دوسرے سے \” \’\’be my valentineمیرے محبوب بنو کارڈ کا تبادلہ کیا ۔سرخ گلاب کے پھول گفٹ کیے ، ایک سروے کے مطابق پھولوں کی چالیس فیصد خرید و فروخت صرف ایک دن میں ہوتی ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقیقی محبت اگر ختم ہو جائے توپھولوں کے ذریعے واپس نہیں لائی جاسکتی ۔کیڈبری اور دوسری چاکلیٹ زبردستی کھلائیں کہ پلیز میرے محبوب بن جاؤ ،کچھ طالب علم نے یونیورسٹی کالج سکول سے چھٹی کر کے اپنی دوستوں کو پارٹی بھی دی ہو گی اور سیر و تفریح کے لیے بھی گئے ہونگے ۔لڑکیوں نے اس دن کی مناسبت سے سرخ رنگ کے کپڑے ، چوڑیاں اور دل کی شکل والا شولڈر بیگ بھی لیا ہوگا تاکہ اس دن کو بھر پور انجوائے کیا جاسکے ۔کچھ نام نہاد اور بازاری قسم کے عاشقوں کے لیے یہ دن بلاشبہ عید کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ لوگ پورا سال اس دن کا انتطار کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں اگر آپ جس سے محبت کرتے ہیں اور اظہار کی جرات نہیں کر پائے چودہ فروری کو اسے صرف ایک سرخ رنگ کا پھول اور کوئی بھی سستا سا دل کی شکل والا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز محبوب تک پہنچا سکتے ہیں ۔آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ سینکڑوں آفرز میں آپ کو بھی ویٹنگ لسٹ میں ڈال دے یا ری سائیکل بن کی نظر کر دے ۔محبت پہلے قربانی مانگتی تھی لیکن آج کل خرچہ مانگتی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کب شروع ہوا اور کس نے شروع کیا اس میں بہر حال بہت سے تضادات ہیں ،ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم کے بادشاہ کلاڈیس کو اپنے مخالف ملک پہ فوج کشی کی ضرورت پڑی تو اس نے فوج کی بھرتی کھول دی ، دیکھا تو بہت کم لوگوں نے فوج کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ، وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ لوگوں کی اپنے اہل و عیال اور بیویوں کی طرف رغبت ہے ۔اس نے اپنے فوجیوں اوررعایا پر عشق و محبت اور شادی پر پابندی لگا دی ، کلاڈیس کے خیال میں وطن سے محبت میں سب سے بڑی رکاوٹ عورت کی محبت تھی ۔ ویلنٹائن ایک پادری تھا جس نے کلاڈیس کے حکم کی سرعام مخالفت کی اور چھپ چھپ کر لوگوں کے نکاح بھی پڑھواتا رہا اور محبت کرنے والوں کو جائے پناہ بھی دیتا رہا۔بادشاہ کو جب پتا چلا کہ اس کی مملکت میں ایک پادری یہ جسارت کر رہا ہے تو اس نے پادری کوسزائے موت سنا کر جیل میں ڈال دیا ۔کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی لیکن ویلنٹائن نے اس کو چھپائے رکھا کیونکہ عیسائی پادریوں کے نزدیک شادی کرنااور عاشقی معشوقی حرام ہے ۔بادشاہ کو جب معلوم ہوا تو اس نے 14 فروری 270 ء کوویلنٹائن کو پھانسی دے دی ۔اسی مناسبت سے چودہ فروری کو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے محبت کی عید مناتے ہیں اورمختلف طریقے سے اس کا اظہار کرتے ہیں ۔
جب سے یہ تہوار شروع ہوا ہے اس کا مقصود زوجیت کے دائرے سے باہر کی محبت ہی مراد ہے ۔جس میں زنا، فحاشی کو خوب پروموٹ کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عیسائی دینی حلقوں نے بھی عید حب کی بھرپور مخالفت کی اور اس کے خلاف تحریک چلائی اور اسے باطل قرار دے دیا۔لیکن انیسویں صدی میں دوبارہ اس کو شروع کردیا گیا اور پاکستان میں 2004 سے پہلے ویلنٹائن ڈے کا نام کوئی نہیں جانتا تھا ۔کچھ پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیوں اور این جی اوز نے اس کو پاکستان میں متعارف کروایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یونانیوں کے محبت کے خدا Cupid کی تصویر والے کارڈ جس میں ایک لڑکا دکھایا گیا ہے جس کے دو پر ہیں اور اس کے ہاتھ میں تیر کمان ہے اور وہ تیر محبوبہ کے دل میں پیوست کر رہا ہے ، تحفتاً دینے لگے ۔اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے براہ راست پروگرامز،ٹاک شو، اخباروں کے سپیشل ایڈیشنز اور اشتہاری کمپنیوں نے بھی حیا کا خوب جنازہ نکالا۔اس دن مختلف اشتہاری کمپنیاں اپنی مصنوعات دیوانوں کو فروخت کرکے کھربوں ڈالر کا منافع کماتی ہیں ۔یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل ایسی تہذیب اور فیشن اختیار کرتی اور ایسے ایام مناتی ہے جو ہمارے ہیں ہی نہیں ۔اسی تناظر میں مسلم ممالک اورمعاشرے پر تہذیب کی جنگ مسلط کی گئی،دنیا کو ایک گلوبل ویلج کا درجہ دے دیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ تمام دنیا کو ایک پلیٹ فارم اور تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جس کے تحت تمام قومیں اور معاشرے ایکدوسرے کی تہذیب اور رسم و رواج کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اپنی زندگی کا لازم جزو بھی بنائیں ۔اور اس مقصد میں شیطان لوگ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔
کچھ لوگ کی یہ رائے ہے کہ اسلام خوشی منانے سے منع نہیں کرتا ، اگر ہم نے اپنی بیوی ، ماں ، باپ سے محبت کا اظہار کردیا اور ان کو وِش کردیا تو اس میں کیا حرج ہے ۔ہم یہودیوں کی طرح تو نہیں مناتے بلکہ اسلامی اقدار میں رہتے ہوئے اس کو مناسکتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔افسوس ہے ان دانشوروں اور روشن خیال عاشقوں پر ،طریقہ اور نام بدلنے سے غلط کام جائز نہیں ہو جاتا ۔ اگر آپ نے خوشی منانی ہی ہے تو کسی اور دن کا انتخاب کر لیں ضروری ہے کہ چودہ فروری کو ہی خوشی منائی جائے ۔ کیا خوشی صرف ایک دن کے لیے ہی ہے ؟کیا والدین سے محبت صرف ایک دن کے لیے ہے ، والد کے چہرے کو روز دیکھنا ایک مقبول حج کا ثواب ہے ۔یاد رکھیے اسلام مکمل دین اور ضابطہ حیات کے ساتھ ساتھ فطری مذہب ہے ۔خوشی اور محبت فطری جذبات ہیں اور اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن خوشی کو سیلیبریٹ اور محبت کے اظہار کے لیے ہمیں ان کو اسلام کی کسوٹی اور معیارات پر پرکھنا ہوگا ۔ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب کفارو مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا ہے جس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے ۔آپ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’ من تشبہ یقوم فھو منھم ‘‘ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا شمار انہی میں سے ہو گا۔اب ہر شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن لوگوں میں سے ہو نا پسند کرے گا۔یاد رکھیے دین اسلام میں اللہ تعالیٰ سے محبت ، نبی کریم ﷺ سے محبت ، صحابہ کرامؓ سے محبت ، تابعین تبع تابعین سے محبت ، خلفائے راشدین سے محبت ، اولیائے اللہ سے محبت ، اہل بیتؓ سے محبت ، علمائے کرام سے محبت ، دین کی مدد کرنے والوں سے محبت ، اللہ کی راہ میں شہادت پانے والوں سے محبت جیسی محبتیں ہیں جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے ۔اسلام میں ویلنٹائن ڈے ، فادر ڈے ، مدرز ڈے ، بسنت اور کرسمس جیسے تہواروں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہماری انفرادی ، دینی ، معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں ،لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں ، سکول اساتذہ ایک دن پہلے تمام طالب علموں کو متنبہ کریں اور والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس دن بچوں کی سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھیں ، بچہ اگر ایکسٹرا پاکٹ منی کا مطالبہ کرے ،بچی سکول سے چھٹی کے بعد سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کرے ، بچہ والد سے گاڑی مانگے یا ڈرائیور کو ساتھ نہ لیجانے کا بہانہ کرے تو الارمنگ سگنل ہے ۔دکاندار حضرات اس دن کی مناسبت سے وِش کارڈ اور گفٹ پیک فروخت کرنے سے اجتناب کریں ، انشاء اللہ اللہ حلال ذریعے سے آپ کی روزی میں اضافہ کرے گا۔ علماء کرام اور خطیب حضرات کی بھی دینی ذمہ داری ہے کہ منبر رسول ﷺ پہ بیٹھ کر لوگوں میں دینی شعور پیدا کریں ۔اگر ہم نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں اور اپنی معاشرتی روایات ، اسلامی اقدار کی حفاظت نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے بھی آگے نکل جائیں گے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں