183

محافظ جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن جائیں تو پھر عوام کدھر جائے؟

معاشرے میں امن و مان قائم رکھنے، شہریوں کی جان و مال، املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے ساتھ ساتھ جرائم کو کنٹرول سمیت قانون شکنوں کو رائج قوانین کے تحت سزا دلوانے کے لیے محکمہ پولیس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تاہم ماضی قریب میں محکمہ پولیس میں ریفارمز کے نام پر کئی تجربات کئے گئے،چاہے آپریشن ونگ اور انوسٹیگیشن ونگ کو الگ کرنا ہو یا محکمہ پولیس اور عوام کے درمیان قائم فاصلوں کو محض پولیس وردیوں کے ڈیزائن اور انکی رنگت تبدیل کرکے محکمانہ مثبت تشخص کے لیے اقدامات ہوں،

اس کے باوجود مسائل ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں اور وسائل کی کمی کا رونا رو کر اپنے مثبت محکمانہ تشخص کو برقرار رکھنے کی سعی بھی جاری و ساری ہے، عوام الناس جس کا بہت سے معاملات میں براہ راست واسطہ پڑتا ہے ان میں سب سے زیادہ محکمہ حوالے سے پائے جانے والے منفی تشخص کی بنیاد پولیس رویے ہیں، جو تاحال بہتر نہیں ہوسکے، شاہراہوں، چوک، چوراہوں یا ناکوں پر تلاشی کے نام پر شہریوں کی تذلیل ہو یا اپنے گھمبیر مسائل تھانے کی سطح پر لے کر جانے والے سائلان سے پولیس کا رویہ ہو، وسائل مہیا کرنے باوجود شہریوں کو چیلنجز کا سامنا درپیش ہے،

آن لائن کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم، ای ٹیگ کا نظام ہو اس کے باوجود بھی ایف آئی آر کے اندراج تاخیر سمیت مقدمات کی تفتیش میں غفلت ولاپرواہی برتنے سے ملزمان عدالتوں سے ریلیف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، دوسری جانب اعلیٰ پولیس حکام کھلی کچہریاں منعقد کرکے روایتی انداز میں انکوائری کا حکم دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں، موجودہ دور میں ڈیجیٹل میڈیا پر افسران اپنی کارکردگی کی نشر و اشاعت میں زیادہ توجہ دے رہے تاکہ انکی انفرادی شخصیت سازی کا پہلو اجاگر ہوسکے، مگر سنگین پہلو یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے اندرونی احتساب میں کمزوری، منتخب عوامی نمائندوں کا پولیس افسران کی پرفارمینس کی بنیادوں پر ترقی اور انکے مؤثر احتساب کامستحکم نظام قائم نہ کرنا محکمہ پولیس کی بدترین کارکردگی کی بنیاد بن رہا ہے،

پنجاب پولیس میں انٹرنل اکاونٹیبلٹی کا ونگ تو قائم ہے مگر ونگ کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس پالیسی اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہے، مشرف دؤر میں بنائے گئے پولیس آڈر 2002تحت صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے قیام ساتھ ساتھ ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام عمل میں لانا تھا جس کا مقصد پولیس خلاف شہریوں کی شکایات پر موثر احتساب کا عمل شروع کرنا تھا جس میں منتخب عوامی نمائندوں کو بھی کمیشن میں شامل کیا گیا ہے،

تاہم پولیس سروس آف پاکستان کے بابو اور اسٹیٹس کو نظام سے مستفید ہونیوالی سیاسی جماعتوں نے اقتدار حاصل کرنے بعد پولیس کے موثر احتساب اور کارکردگی کی بنیاد پر جزا و سزا کے نظام کو مزید شفاف اور بہتر کرنے بجائے وردیوں کی تبدیلی سمیت محکمہ اندر نت نئے ونگز اور تجربات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ آئے روز پولیس اختیارات سے تجاوز کی بدترین واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، پولیس کا بنیادی کام جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالنا اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے محافظ اگر جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن جائیں تو پھر عوام کدھر جائے گی،

لاہور کی مثال دیکھی جائے تو خاتون ایس ایچ او کے گھر سے ملزمان کی نشاندہی پر رابری میں استعمال ہونے والا ناجائز اسلحہ برآمد ہونے سے لے کرراولپنڈی میں ہنی ٹریپ گینگ کے متعدد واقعات میں ملوث ملزمان کی سہولت کاری کرتے صادق آباد پولیس سٹیشن میں تعینات کانسٹیبلان و ہیڈ کانسٹیبل کے 05 اہلکار ملوث نکلے لیکن ان سے مکمل تفتیش کے بجائے پلو تہی سے کام لیتے ہوئے انہیں جوڈیشل کردیا گیا ہےاسی طرح روات کے علاقے میں ایک اوورسیز پاکستانی تاجر کو ڈسمس سب انسپکٹر نے اپنے مذموم مقاصد اور طمع نفسانی خاطر اغوا کرکے حبس بے جا میں رکھ کر مال چھین لیا،

پولیس جانب سے اسکو گرفتار نہ کرنا ، اس کا مدعی فون کرکے مقدمہ کی پیروی سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور عبوری ضمانت کے لئے پولیس سے مبینہ ریلیف ملنا سنگین نوعیت کے پہلو کی طرف اشارہ کررہا ہے ان تمام تر واقعات کو زیر مشاہدہ رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پولیس اہلکاروں کو نہ صرف کمزور تفتیش باعث ریلیف دلوایا جائے گا بلکہ جلد ہی یہ محکمانہ اپیلوں پر سروس میں بحال ہوکر واپس اسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں گے، کیا یہی موثر احتساب ہے، کیا ایسے اہلکار ملازمت پر بحال ہو جانے چاہیں یا مستقل طور پر برخاست کرکےمثال عبرت بنانہ چاہیے تاکہ عوام کا جو وردی سے اعتماد اٹھ گیا ہےوہ بحال ہوسکے بصورت دیگر عوام اور محکمہ پولیس میں وہ خلیج حائل ہوجائیگی جسے پاٹنا ناممکن ہوجائیگا

آصف محمود شاہ سینئر صحافی ہیں راولپنڈی اسلام آباد اور مضافاتی علاقہ کے کرائم پر نظر رکھے ہوئے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں