314

ماں کی دعاؤں کا صلہ

خوبصورت تحریروں کی وجہ سے نام سے شناسائی تو پہلے ہی سے تھی لیکن باضابطہ تعارف نہ ہونے کی بناء پر ایک عرصہ سے ملنے کا تجسس تھا چند برس قبل ملک کی ایک نامی گرامی سیاسی شخصیت کے عوامی جلسہ میں شریک تھا کہ تقریب کے آغاز کے لیے تلاوت قرآن پاک کے بعد ہدیہ نعت پیش کرنے کے لیے سٹیج سیکرٹری نے محمد جاوید چشتی کا نام لیا تو ایسے محسوس ہوا کہ گویاکوئی کھوئی چیز مل گئی ہے ان کی تلفظ کی ادائیگی بھی تحریروں کی طرح انتہائی عمدہ تھی تقریب کے بعد رش ہونے کی وجہ سے ملاقات تو نہ ہوسکی لیکن چند دن بعد صبح سویرے ہی فون کال آئی تو اٹینڈ کرنے پر آواز آئی میں کلرسیداں سے محمد جاوید چشتی بول رہا ہوں بھائی جی میں اخبار کا ڈیکلریشن لینے کا خواہشمند ہوں آپ کی معاونت درکار ہوگی پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پانچ سال تک گاہے بگاہے کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا بلکہ ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوگئیں شعبہ وکالت میں آنے سے ان کی زندگی میں مزید مصروفیت آگئی

گزشتہ روز کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی ان کی مسلسل کامیابیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو گویا ہوئے خطیب بھائی یہ سب کچھ ماں کی دعاؤں کا صلہ ہے وگرنہ مجھ میں کوئی کمال نہیں۔ دوسری یا تیسری جماعت میں تھا جب والد فوت ہوئے۔ کسمپرسی اور بے بسی نے ڈیرے ڈالے۔ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یتیم بچہ درسگاہ موہڑہ پھڈیال میں داخل ہوا، حافظ ”یار“ کی ”مار“ نے بھاگنے پر مجبور کیا۔ پانچویں کلاس تک تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کلربدہال سے حاصل کی۔قاری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر اورنگزیب صاحب، ماسٹر خالد صاحب اساتذہ تھے۔ سنٹر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ چھٹی جماعت کے لئے اپنا گھر یتیم خانہ فیض آباد میں داخل کرایا گیا۔ سامنے پہلوی ہائی سکول تھا۔ شام کے کھانے میں کیڑوں والے چاول ملے تو وہاں سے بھی بھاگا۔ ساتویں میں ہائی سکول کلرسیداں داخل ہوا۔ سلطان سہراب صاحب انچارج تھے۔ آٹھویں میں قاضی غوث صاحب کی شدید مار برداشت کی نویں اور دسویں میں ماسٹر ممتاز صاحب سے اکتساب فیض کیا۔ مرزا مشتاق صاحب کی شفقتیں یاد رہیں گی۔ 1989 جس دن میٹرک کا نتیجہ آیا، کلیام شریف عرس تھا۔ شام کو معلوم ہوا کہ جاوید نے میٹرک میں سکول ٹاپ کیا ہے اس وقت میٹرک کے 5 سیکشن تھے۔ نتیجہ سن کے رات کو کلیام شریف گیا۔ رات بھر نصرت فتح علی خان کو پاس بیٹھ کے سنا۔ یاد آیا نویں میں دو سال لگائے تھے وہ یوں کہ فاقوں سے بچنے کے لئے کچھ عرصہ مزدوری کرنا پڑی تھی پھر جلد ہی ماموں گلفراز (مرحوم) ایران سے پاکستان آئے تو انھوں نے دوبارہ سکول داخل کرا دیا تھا۔

رحمت آباد کالج (پنڈوڑہ) میں پی ٹی سی کی۔ سکول ٹیچر بنا۔ مصطفی کریانہ سٹور، ارشد بوٹ ہاؤس پہ سیلز مینی کی۔ 7اپ فیکٹری میں وائپر سے فرش صاف کیا اور لائیٹ مین قرار پایا۔ سرسید کالج میں ادھوری تعلیم، ایف اے، بی اے، ایم اے، سی ٹی، بی ایڈ اور ایل ایل بی کی ڈگریاں امتیازی حیثیت سے پاس کیں۔ اپنے بچوں ابو بکر، عمر اور میمونہ کو تعلیم دلوائی اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنا آپ سنبھال سکیں۔ کم آمدنی میں اچھا کھانا اور عمدہ لباس پہنا۔ ماسٹر ایم ظہیر چودھری اور ماسٹر عبدالرشید کا قرض ابھی تک دینا ہے۔ ہمیشہ ان سے قرض لیتا رہا اور وہ ہمیشہ قرض دیتے رہے۔ کیا خاص دوست میسر آئے۔ ملک انصر خان، راجہ ظفر محمود، مسعود بھٹی نے بھی مشکل وقت میں مالی تعاون کیا جن کے شکریے کے لئے الفاظ کم ہیں۔ چھوٹے بھائی امجد نے ہمیشہ ساتھ دیا، کم وسائل میں بھی اور اب بھی جب ایک بڑی ڈیمانڈ کو نکی جئی ہاں کے ساتھ پورا کیا۔ اللہ اس کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین میں یہاں خاص طور پر حضرت پیر ڈاکٹر ساجد الرحمن صاحب کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جنھوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ بولنے اور لکھنے میں ان کی حوصلہ افزائی کا ہی حصہ ہے۔ صحافت میں دل چسپی بھی ان ہی کی دین ہے روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹی وی کے لئے ایک عرصہ کام کیا۔ سیاسی اور کرائم ڈائری کے ساتھ بلدیات کے صفحہ پر عرصہ تک چھپتا رہا۔ ”یاد گار لوگ“ شخصیت کے صفحہ کے لئے میری تحاریر پر مشتمل کتاب ہے، گویا ہم صاحب کتاب بھی ٹھہرے۔

5 سال تک اپنا اخبار”افق پوٹھوار“ نکالا۔نعت خوانی میری پہچان ہے۔ بغیر کسی لالچ کے نعت پڑھتا ہوں۔ ایک بار جب میں فیض الاسلام یتیم خانہ میں تھا تو راجہ بازار میں مقابلہ نعت میں شرکت کی۔ اول انعام شیخ مشیر عشرت نے 500 روپے مجھے دیا۔ اس رقم سے سائیکل خریدی تھی۔ یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ مجھے یاد ہے سخت سردی میں باریک کپڑوں میں تھا اور شدت سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔محترم جناب انجینئر قمرالاسلام راجہ جب پہلی بار ایم پی اے بنے تو انھوں نے 15 لاکھ کی گرانٹ دی جس سے اپنے گھر تک گلی کنکریٹ کرائی۔ گاوں میں جنازہ گاہ کی اشد ضرورت تھی۔ مسعود بھٹی صاحب کی وساطت سے یہ صدقہ جاریہ نسلوں کے لئے موجود رہے گا۔ الحمدللہ!اس وقت قانون کا طالب علم ہوں۔ پنڈی بار کی ممبر شپ ہے۔ کلر بار میں پریکٹس کرتا ہوں اور اپنے تئیں کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کلائنٹس کے حقوق دلوا سکوں۔ میری ہر کامیابی میری عظیم والدہ کی دعاوں کا ثمر ہے وگرنہ مجھ میں کوئی کمال نہیں۔

”میری ماں“ میری زندگی کی سب سے خوب صورت تحریر ہے جو حقیقت پر مبنی ہونے کے باعث مقام بلند حاصل کر گئی۔ مجھے یہ بھی فخر ہے کہ میں نے اپنی دونوں بہنوں بیناں اور صوبی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ایم اے، ایم ایڈ تک۔ روز قیامت اپنی بخشش کے لئے اپنی جس نیکی کو رب کے حضور پیش کروں گا، وہ اپنی بہنوں اوراپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا ہو گی جاوید چشتی کی کامیابی پھولوں کی سیج نہں بلکہ کانٹوں بھرے سفر کی مرہون منت ہے انہوں نے یتیمی کا مقابلہ مایوسی سے نہیں بلکہ جہد مسلسل سے کیا بلاشبہ ان کی زندگی کئی لوگوں کے لیے مثال اور روشنی کی کرن ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں