191

مائیں نسلیں سنوارتی ہیں

خوش لباسی دھیمہ لہجہ اور انسانی خدمت سے سرشاری نے خالد محمود مرزا کو میری پسندیدہ شخصیت بنادیا وہ گاہے بگاہے دفتر چکرلگا لیتے رہتے ہیں ہر ملاقات کے دوران مجھے تجسس رہتا ان کی شخصیت میں نکھار کیسے آیا ان کے بارے جان سکوں گزشتہ روز تشریف لائے تو باترجمہ قرآن پاک کا تحفہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی کتاب مکمل ضابطہ حیات ہے اسے ترجمہ کیساتھ پڑھنے سے آپ دنیا اور انسان کی حقیقت سے آشکار ہونگے شکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ باترجمہ تلاوت نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے چاہنے والوں کی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کروں گا انکے پاس وقت ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے چائے بسکٹ آنے سے پہلے انکے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی تو بتانے لگے کہ تینوں بھائیوں میں سے میں سب سے چھو ٹا ہوں

میری عمر ابھی چند سال ہی تھی کہ والد صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی صاحب فراش ہوئے تو اکثر میری والدہ سے کہتے رہتے میرے بعد میرے خالد کا خاص خیال رکھنا پھر کچھ ماہ بعد ہی ابھی میری والدہ محترمہ کی عمر محض 40 سال ہی تھی بیوہ ہو گئیں ہماری پرورش اور تربیت کی ساری کی ساری ذمہ داری انکے کندھوں پر آن پڑی چونکہ زمیندار گھرانہ ہونے کی وجہ سے کھیتی باڑی سے اچھا گزارا ہوجاتا تھا سبزیاں اور انڈے تک گھر کے ہوجاتے تھے اس لیے مالی حوالے سے تو کوئی پریشانی نہ آئی لیکن آپ کو پتہ ہے کہ گاؤں میں بھائی چارے کا ماحول ہوتا ہے برادری اور اپنے و پرائے سبھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں پھر یتیم اور بیواؤں سے ویسے بھی زیادہ ہمدردی کی جاتی ہے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے

کہ بچوں کو کسی قسم کی کمی نہ ہو لیکن میں اپنی والدہ محترمہ کوداد دیتا ہوں کہ انہوں نے کبھی بھی بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کی وجہ سے لوگوں سے ہمدردی سمیٹتے ہوئے مالی امداد کو قبول نہیں کیا بلکہ والدہ صاحبہ کی زندگی سے جاری غریب لوگوں کی خدمت کے مشن میں کمی نہ ہونے دی انہیں یہ حدیث نبوی ﷺ اچھی طرح یاد تھی کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا لینے والے بہتر ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی ہمارے گھر آتا ہے والدہ محترمہ ان کو کبھی خالی ہاتھ واپس جانے نہیں دیا کرتیں دانے یا سبزی اور اگر کچھ دینے کے لیے نہ ہو تو گھر میں رکھی مرغیوں کے انڈوں سے ہی گود بھر دیتیں یہی وجہ ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں شروع ہونے والا خدمت کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری و ساری رہا اور اب تک جاری ہے باپ کا سایہ سر سے اٹھنے پر والدہ محترمہ نے کبھی بھی احساس کمتری یا محرومی پیدا نہ ہونے دی بلکہ ساری توجہ ہماری تعلیم و تربیت پر مرکوز کیے رکھی۔

ماں کی گود اولاد کی اولین درسگاہ ہوتی ہے ان کی تعلیم و تربیت ہی انسان کو معاشرہ میں اچھا یا برا مقام دلاتی ہے بلخصوص بچوں کے والد فوت ہوجائیں ان کی والدہ پرذمہ داریوں کا منوں بوجھ آجاتا ہے کہ وہ اولاد کو کسی بھی طرح احساس کم تری سے دور رکھتے ہوئے معاشی اور تعلیمی ضروریات کو پوری کرے میں سمجھتا ہوں کہ نسلوں کو سنوارنے میں ماں سے بڑھ کرکوئی بڑی درسگاہ نہیں ہے میں مرزا خالد صاحب کی باتوں کو سن رہا تھا کہ مجھے اپنے گاؤں کی ایک بیوہ کی بات یاد آرہی تھی

آج الحمدللہ میرے ایک بھائی حساس ادارہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں دوسرے بیرون ملک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور میں یہاں وطن عزیز میں ہی سرکاری ادارہ میں سروس مکمل کر کے ریٹائر ہونے کے بعد عوام میں ہمہ وقت حاضر رہ کر والدین کے مشن کو تقویت پہنچا نے کیلئے کوشاں رہتا ہوں ماں کی گود اولاد کی اولین درسگاہ ہوتی ہے ان کی تعلیم و تربیت ہی انسان کو معاشرہ میں اچھا یا برا مقام دلاتی ہے بلخصوص بچوں کے والد فوت ہوجائیں ان کی والدہ پرذمہ داریوں کا منوں بوجھ آجاتا ہے کہ وہ اولاد کو کسی بھی طرح احساس کم تری سے دور رکھتے ہوئے معاشی اور تعلیمی ضروریات کو پوری کرے میں سمجھتا ہوں کہ نسلوں کو سنوارنے میں ماں سے بڑھ کرکوئی بڑی درسگاہ نہیں ہے میں مرزا خالد صاحب کی باتوں کو سن رہا تھا کہ مجھے اپنے گاؤں کی ایک بیوہ کی بات یاد آرہی تھی آج سے بیس سال قبل رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ کے دوران اپنے ایک عزیز کے ہمراہ ان کے گھر زکوۃ کی ادائیگی کے لیے گیا تو بیوہ خاتون نے نہایت ہی مودبانہ انداز میں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر میں اتنارزق موجود ہے کہ اپنے بچوں کی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرسکتی ہوں زکوۃ لینا میرے لیے جائز نہیں آج اس بیوہ کے بچے جوان ہوکر معاشرہ کے مہذب شہری بن کر ملک وقوم کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہیں دیکھ کر میرا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے اور میں بیوہ کی حقیقت پسندی کو سلام پیش کرتا ہوں اس طرح گاؤں میں ایک ایسی بیوہ بھی تھی جس کا خاندان مالدار تھا اس نے ہمیشہ غربت کا رونا روکر اپنوں سے مالی امداد لیکر بھی بچوں کی کماحقہ تعلیم وتربیت کی ذمہ داری نہ نبھا سکی اور اس کے بچے آج جوان ہوکر بھی ماں اور معاشرے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں قرض ایسا کہ ان کے گھر کی جان ہی نہیں چھوڑ رہا ہے آج ماں ضیف العمری میں بھی لوگوں سے سوال کرکے ان کے لیے دووقت کی روٹی کا بند وبست کررہی ہے زکوۃ حقداروں کا حق ہے ان تک پہنچنی چاہیے حق تلفی کرنیوالوں کی بیڑی (کشتی) کبھی بھی کنارے نہیں لگتی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں