خوش لباسی دھیمہ لہجہ اور انسانی خدمت سے سرشاری نے خالد محمود مرزا کو میری پسندیدہ شخصیت بنادیا وہ گاہے بگاہے دفتر چکرلگا لیتے رہتے ہیں ہر ملاقات کے دوران مجھے تجسس رہتا ان کی شخصیت میں نکھار کیسے آیا ان کے بارے جان سکوں گزشتہ روز تشریف لائے تو باترجمہ قرآن پاک کا تحفہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی کتاب مکمل ضابطہ حیات ہے اسے ترجمہ کیساتھ پڑھنے سے آپ دنیا اور انسان کی حقیقت سے آشکار ہونگے شکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ باترجمہ تلاوت نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے چاہنے والوں کی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کروں گا انکے پاس وقت ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے چائے بسکٹ آنے سے پہلے انکے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی تو بتانے لگے کہ تینوں بھائیوں میں سے میں سب سے چھو ٹا ہوں
میری عمر ابھی چند سال ہی تھی کہ والد صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی صاحب فراش ہوئے تو اکثر میری والدہ سے کہتے رہتے میرے بعد میرے خالد کا خاص خیال رکھنا پھر کچھ ماہ بعد ہی ابھی میری والدہ محترمہ کی عمر محض 40 سال ہی تھی بیوہ ہو گئیں ہماری پرورش اور تربیت کی ساری کی ساری ذمہ داری انکے کندھوں پر آن پڑی چونکہ زمیندار گھرانہ ہونے کی وجہ سے کھیتی باڑی سے اچھا گزارا ہوجاتا تھا سبزیاں اور انڈے تک گھر کے ہوجاتے تھے اس لیے مالی حوالے سے تو کوئی پریشانی نہ آئی لیکن آپ کو پتہ ہے کہ گاؤں میں بھائی چارے کا ماحول ہوتا ہے برادری اور اپنے و پرائے سبھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں پھر یتیم اور بیواؤں سے ویسے بھی زیادہ ہمدردی کی جاتی ہے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے
کہ بچوں کو کسی قسم کی کمی نہ ہو لیکن میں اپنی والدہ محترمہ کوداد دیتا ہوں کہ انہوں نے کبھی بھی بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کی وجہ سے لوگوں سے ہمدردی سمیٹتے ہوئے مالی امداد کو قبول نہیں کیا بلکہ والدہ صاحبہ کی زندگی سے جاری غریب لوگوں کی خدمت کے مشن میں کمی نہ ہونے دی انہیں یہ حدیث نبوی ﷺ اچھی طرح یاد تھی کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا لینے والے بہتر ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی ہمارے گھر آتا ہے والدہ محترمہ ان کو کبھی خالی ہاتھ واپس جانے نہیں دیا کرتیں دانے یا سبزی اور اگر کچھ دینے کے لیے نہ ہو تو گھر میں رکھی مرغیوں کے انڈوں سے ہی گود بھر دیتیں یہی وجہ ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں شروع ہونے والا خدمت کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری و ساری رہا اور اب تک جاری ہے باپ کا سایہ سر سے اٹھنے پر والدہ محترمہ نے کبھی بھی احساس کمتری یا محرومی پیدا نہ ہونے دی بلکہ ساری توجہ ہماری تعلیم و تربیت پر مرکوز کیے رکھی۔
ماں کی گود اولاد کی اولین درسگاہ ہوتی ہے ان کی تعلیم و تربیت ہی انسان کو معاشرہ میں اچھا یا برا مقام دلاتی ہے بلخصوص بچوں کے والد فوت ہوجائیں ان کی والدہ پرذمہ داریوں کا منوں بوجھ آجاتا ہے کہ وہ اولاد کو کسی بھی طرح احساس کم تری سے دور رکھتے ہوئے معاشی اور تعلیمی ضروریات کو پوری کرے میں سمجھتا ہوں کہ نسلوں کو سنوارنے میں ماں سے بڑھ کرکوئی بڑی درسگاہ نہیں ہے میں مرزا خالد صاحب کی باتوں کو سن رہا تھا کہ مجھے اپنے گاؤں کی ایک بیوہ کی بات یاد آرہی تھی
آج الحمدللہ میرے ایک بھائی حساس ادارہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں دوسرے بیرون ملک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور میں یہاں وطن عزیز میں ہی سرکاری ادارہ میں سروس مکمل کر کے ریٹائر ہونے کے بعد عوام میں ہمہ وقت حاضر رہ کر والدین کے مشن کو تقویت پہنچا نے کیلئے کوشاں رہتا ہوں ماں کی گود اولاد کی اولین درسگاہ ہوتی ہے ان کی تعلیم و تربیت ہی انسان کو معاشرہ میں اچھا یا برا مقام دلاتی ہے بلخصوص بچوں کے والد فوت ہوجائیں ان کی والدہ پرذمہ داریوں کا منوں بوجھ آجاتا ہے کہ وہ اولاد کو کسی بھی طرح احساس کم تری سے دور رکھتے ہوئے معاشی اور تعلیمی ضروریات کو پوری کرے میں سمجھتا ہوں کہ نسلوں کو سنوارنے میں ماں سے بڑھ کرکوئی بڑی درسگاہ نہیں ہے میں مرزا خالد صاحب کی باتوں کو سن رہا تھا کہ مجھے اپنے گاؤں کی ایک بیوہ کی بات یاد آرہی تھی آج سے بیس سال قبل رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ کے دوران اپنے ایک عزیز کے ہمراہ ان کے گھر زکوۃ کی ادائیگی کے لیے گیا تو بیوہ خاتون نے نہایت ہی مودبانہ انداز میں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر میں اتنارزق موجود ہے کہ اپنے بچوں کی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرسکتی ہوں زکوۃ لینا میرے لیے جائز نہیں آج اس بیوہ کے بچے جوان ہوکر معاشرہ کے مہذب شہری بن کر ملک وقوم کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہیں دیکھ کر میرا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے اور میں بیوہ کی حقیقت پسندی کو سلام پیش کرتا ہوں اس طرح گاؤں میں ایک ایسی بیوہ بھی تھی جس کا خاندان مالدار تھا اس نے ہمیشہ غربت کا رونا روکر اپنوں سے مالی امداد لیکر بھی بچوں کی کماحقہ تعلیم وتربیت کی ذمہ داری نہ نبھا سکی اور اس کے بچے آج جوان ہوکر بھی ماں اور معاشرے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں قرض ایسا کہ ان کے گھر کی جان ہی نہیں چھوڑ رہا ہے آج ماں ضیف العمری میں بھی لوگوں سے سوال کرکے ان کے لیے دووقت کی روٹی کا بند وبست کررہی ہے زکوۃ حقداروں کا حق ہے ان تک پہنچنی چاہیے حق تلفی کرنیوالوں کی بیڑی (کشتی) کبھی بھی کنارے نہیں لگتی۔