آصف خورشید/لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو لوگوں کو اپنا پیروکا ر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔یاایسا جادوگر جو ممولے کو شاھین سے لڑا دے۔لیڈر اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو شب تاریک میں اپنے انوا ر سے قافلے کو رہنمائی عطا کرتا ہے۔قیادت بھی اسی کو زیب دیتی ہے جو کاروان حیات کو خارزاروں سے نکال کر گلشن راحت میں پہنچا دے۔لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو دشمن سے لڑنا،مصائب سے ٹکرانا،اور ٹھنڈی بجلیاں بن کر خرمن چلانا جانتا ہو،کچھ لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ لیڈر پیدائشی ہوتے ہیں۔مگر ضروری نہیں کہ ہر شخص اتفاق کرے کیونکہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ لیڈر پیدائشی نہیں ہوتے بلکہ لیڈر زندہ قو موں میں بنائے جاتے ہیں۔ابراھم لنکن پیدائشی لیڈر نہیں تھا وہ جوتے پالش کیا کرتا تھا۔نیلسن منڈیلا بکریاں چرا کر لیڈر بنا۔قطب الدین ایبک ایک غلام تھا۔چنگیز خان یتیم تھا۔محمد بن قاسم نے آسائشوں میں رہ کر اپنے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کی۔سقراط ایک سنگ تراش کے گھر پیدا ہوا۔سکندر اعظم کو مقروض رومی سلطنت ملی۔فرانس کے عظیم سپوت نپولین نے اپنی زندگی کا آغاز ایک ڈاکیے کی حیثیت سے کیا۔شیر شاہ سوری عام قبیلے کا فرد تھا۔التمش ایک غلام کا بیٹا تھا۔اٹلی کا عظیم قائد مسولینی ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ہٹلر ایک بڑھئی کا بیٹا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کا باپ درزی تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سکول ہیڈ ماسٹر کے ہاں پیدا ہوا۔لیڈر ماحول کے پروردہ بیٹے ہوتے ہیں لیڈر خون کے سمندر اورآگ کی آندھیوں سے گزر کر بنتے ہیں۔لیڈر ظلم کی چکی کے پاٹوں کے بیچ رہ کر اپنا وجود زندہ رکھتے ہیں لیڈر جھونپڑیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور جھونپڑیوں کا دکھ جانتے ہیں۔اگر ہم دنیا بھر کہ علمی درسگاہوں پر نظر دوڑائیں تو دنیا کی کوئی ڈگری ایسی نہیں ہے جس میں لیڈر شپ کی تعلیم ایک اہم جزو نہ ہو۔اسلام کی لیڈر شپ کو پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ابوبکر ؓ کو صدیق کس نے بنا یا۔عمر کو فاروق کس نے بنایا۔ عثمان کو غنی کس نے بنایااورعلی کو شیر خداکس نے بنایا۔طارق بن زیاد کو کشتیاں چلانی کس نے سکھائیں۔موسیٰ بن نصیر کو گھوڑے دوڑانے کس نے سکھائے۔لیڈر بننے کے لیے اپنے دامن کو آرائشوں سے بچانا پڑتا ہے۔اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کا رلاکرمعاشرتی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔تب جا کر لیڈر بنتاپڑتا ہے۔لیڈر احساس کا نام ہے آج ہم میں سے ہر وہ شخص لیڈر بن سکتا ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہو۔لیڈر بھی وہی ہوگااور قیادت بھی اسی کے قدم چومے گی۔
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
467