157

قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف

طاہر یاسین طاہر
کربلا کی تحریک کوئی پوشیدہ تحریک نہیں ہے۔کسی جائز یا صالح حکومت کے خلاف کوئی سازش بھی نہیں ہے، کوئی خاندانی جنگ نہیں ہے۔کربلا صرف ایک المیے، ایک حادثے، ایک واقعے اور دکھ بھری شہادتوں ہی کی داستان بھی نہیں بلکہ ایک پوری تحریک ہے،الہٰی تحریک، جو اپنے اندر عالم انسانیت کے لیے الہٰی اطاعت کا حتمی کلیہ سموئے ہوئے ہے۔کربلا صرف یوم عاشور کا ہی نام نہیں، نہ ہی صرف طلوعِ ماہ محرم ہمیں کربلا کے آفاقی پیغام کی یاد آوری کراتا ہے۔بلکہ کربلا کی بنیاد تو ذبیح اسماعیلؑ سے ہو گئی تھی۔وہی عظیم قربانی جس کے بارے علامہ اقبال فرما گئے کہ ، اس قربانی کی نہایت حسین ؑ ہیں۔کربلا ایک میدان کارزار ہی نہیں، قطعی نہیں، بلکہ ایک عظیم درس گاہ بھی ہے۔جہاں سے حریت فکر و عمل کا درس ملتا ہے
کیا یہ سچ نہیں کہ اگر حسین کربلا میں دین حق کی سر بلندی کے لیے قیام نہ کرتے تو آج دین اسلام کی تعلیمات کیا ہوتیں؟ کربلا میں اتنی قربانیوں ، حتی ٰ کہ چھ ماہ کے علی اصغر کو دینِ مبین پہ قربان کرنے،شبہیہ رسول ؑ علی اکبر کی شہادت و بیبیوں کی قید کے باوجود بھی ، دین مبین میں کج خیال ملائیت نے نئی نئی توضیحات و بدعات داخل کر دیں، تو سوچیے کہ اگر واقعہ کربلا پیش نہ آیا ہوتا اور امام حسین ؑ یزیدی حکومت و اعمال کے خلاف قیام نہ کرتے تو دین کیا ختم نہ ہوجاتا؟کیا یزید نے نعوذ باللہ یہ کہہ نہیں دیا تھا کہ کوئی وحی،کوئی شریعت نہیں اتری؟ یہ صرف بنی ہاشم نے اپنی حکومت کے لیے ایک کہانی گھڑی تھی۔اس امر میں کلام نہیں کہ حسین ؑ کا قیام باطل، بد بخت اور دین بیزار حکومت کے خلاف تھا۔یزید کی نامزدگی اور اس کی جابرانہ و ظالمانہ حکومت اپنی اصل میں ہی باطل و غلط تھی۔تخت پہ بیٹھتے ہی یزید کا ہدف امام حسینؑ کی بیعت حاصل کرنا تھا۔کیوں؟ اس لیے کہ اگر نواسہ رسول ؑ کی حمایت یزید کو حاصل ہو جاتی تو اس کی باطل حکومت کو بخدا شرعی جواز مل جاتا۔ مگر کہاں ہندہ کا پوتا اور کہاں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھما کا نواسہ؟یزید نے کئی اکابرین و صالحین کی بیعت حاصل کر لی تھی مگر اس کی تشفی نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس کا ہدف خاندانِ رسالت مآب ؑ تھا۔ مگر وہ بد بخت ناکام و نامراد ہوا ۔کربلا کے خونیں واقعے کے تاریخی محرکات کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔علمائے اسلام کو چاہیے کہ واقعہ کربلا کو صرف رونے رلانے کی داستان بنانے کے بجائے ان محرکات اور اہداف پر بھی بات کیا کریں، جن عظیم اہداف کی خاطر امام حسین ؑ نے اپنے خاندان اور اپنے عظیم و باوفا اصحاب کی قربانی پیش کی۔یزید کی بیعت کے سوال پر امام حسین کاجواب، صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ اس کی توضیح میں کئی دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ ذلت ہم سے دور ہے‘‘ یعنی آپ یزید کی بیعت یا اس کی حکومت کی حمایت کرنے کو ذلت سمجھتے تھے، اور بے شک جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہو، اور جو، جوانان جنت کے سردار ہوں، ذلت ان سے دور اور ان کے دشمنوں کی دامن گیر ہوتی ہے۔امام عالی مقام علیہ السلام ایک اور جملہ فرماتے ہیں کہ’’،مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا‘‘یہ جملہ قیامت تک کے لیے اصول ہے۔اے کاش ہم آج بھی مقصدِ قیام امام حسین سمجھ لیں۔آج کے نسان کو پہلے سے زیادہ کربلا میں امام حسین کے قیام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔چار سو باطل قوتیں ہیں، دہشت گردی ہے، مارا ماری ہے، ۔،مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پھٹنے والے، دین مبین کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں۔کربلا میں بھی دہشت گردوں کی ایک پوری فوج تھی، وہ بھی دین کے نام پر نواسہ رسولؓ کواور ان کے خاندان کو ذبح کر رہی تھی۔ اس فوج کا حاکم یزید ملعون تھا۔آج بھی ہمارے اردگرد کئی یزید، فکرِ حسین سے خوفزدہ،مگر حملہ آور ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔واقعہ کربلا کا اگر دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ سفرِ عشق ہر گام اپنے اندر دردناک باب لیے ہوئے ہے۔ یہی سوچ کر انسان کا دماغ پھٹتا ہے کہ آل رسو لؑ پر اس قدر ستم اور وہ بھی اس دلیل کے ساتھ کہ نعوذ باللہ حسین ؑ باغی ہو گئے ہیں؟وہ جو جنت کے سردار ہیں۔ وہ جن کے لیے اللہ کے رسول نے نماز میں اپنے سجدے کو بحکم الہٰی طول دے دیا تھا،کیا وہ دین مبین کی تعلیمات سے پھر گئے ہیں؟ نعوذ باللہ۔۔۔ ہاں باغی ہوا تو یزید ہوا۔لعنت یزید کا مقدر ہوئی،فوج اشقیا صبح قیامت تک لعنت کی سزاوار ہے۔میرا حسینؑ تو انسانیت کی بقا اور اسلام کی حیات کا ضامن ہیبے شک آج کے انسان کی ضرورت تفہیم قیام امام حسین علیہ السلام ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ انسان جوں جوں قیامِ امام حسینؑ پر غور کرتا جا رہا ہے کربلا سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔امام حسینؑ نہ تو صرف شیعیوں کے امام ہیں، اور نہ صرف سنیوں کے امام ہیں۔ خدارا میرے حسینؑ کو تقسیم کرنے کی کوشش نہ کریں،حسینؑ تو سب کے ہیں۔ جو شخص بھی عدل الہٰی کاقائل ہے، جو بھی باطل قوتوں اور یزیدی کرداروں کے سامنے دیوار ہے،وہ حسینیؑ ہی تو ہے۔فکری حسینیؑ کے سامنے یزیدی فکر لرزہ اندام ہے۔ یزیدی قوتوں کا مسئلہ کربلا نہیں، بلکہ مقصد قیام امام حسین ؑ ہے۔یزیدی فکر کی سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں۔کبھی ناصبیت کی شکل میں اس کا اظہار ہو رہا ہے تو کبھی داعش کے مختلف فکری رویوں سے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں