سنت فرعون ادا ہوتی ہے اسلام کے نام پر
جنت بٹ رہی ہے یہاں بچوں کے قتل عام پر مولانا مودوی نے خلافت سے ملوکیت کی طرف مسلمانوں کے طرز حکومت کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ واقعات کی جانب اشارہ کیا ۔ ان واقعات میں دیگر بہت سوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ شہادت حضرت علی ؑ کے بعد ان کے وہ حامی جواس وقت جنگ نہیں کررہے تھے ان کو بھی محبت حضرت علیؓ کے جرم کی وجہ سے شہید کیا گیایہاں تک ایک شخص کو زندہ دفن کر دیا گیا۔تاریخ میں یہ واقعہ بھی مرقوم ہے کہ حضرت علی ؑ کے نامزد کردہ ایک گورنر حضرت عبیداللہؓبن عباسؓ کے دو بچو ں کو ان کے پالنے والے والدین سمیت باغیوں نے شہید کر دیا تھا۔ظلم کا عروج انسانیت نے واقعہ کربلا میں دیکھاجہاں نبیؐکا کلمہ پڑھنے والوں نے اہلبیت رسولؐ کے چھ ماہ کے بچے کو ایسا تیر مار کے شہید کیا کہ جو جانوروں کو مارنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ مسلمانوں میں ملوکیت کے دخول کیساتھ ہی بتدریج وہ تمام غیر اسلامی رویے راسخ ہو گئے جوکہ ان بادشاہوں کا خاصہ تھے جو خود کو فرعون سمجھتے تھے۔مسلمانوں کو زندہ جلا دینا ،زندہ دفن کر دینا،بچوں کو قتل کردینا،حکومت کے لئے بھائی کا بھائی کو مروادینا ،مخالفین کو خفیہ طریقہ سے زہر دلوانایہ سب ملوکیت کا ہی تحفہ ہے۔اسی دور جبر میں عقیدہ و سیاسی مخالفت کی بنیاد پر گردن زنی کو رواج حاصل ہوا۔
دور نبویؐ میں جب جنگ کے لئے لشکر صف آراء ہوتے تھے یا مدینہ سے اصحاب ’’سریہ‘‘کیلئے روانہ ہوتے تھے توانہیں ہدایت کی جاتی تھی کہ معذروں،بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ مال مویشی اور فصلات تک کے اجاڑنے سے روکا جاتا تھا۔امام احمدؒ بن حنبل ایک روایت لائے کہ حضورؐکے زمانہ میں مسلم عسکری دستہ نے مشرکین کے بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ اس پر رحمت اللعالمینؐنے ان لشکریوں سے پوچھا کہ انہوں نے کیوں یہ عمل سر انجام دیا تو اصحاب نے عذر پیش کیا کہ وہ مشرکین کی اولاد تھے۔حضورؐ نے فورا جواب دیا :کیایہ حقیقت نہیں کہ تم میں سے جو آج اسلام کی نعمت حاصل کر کے بہتر لوگ بنے ہیں وہ مشرکوں ہی کی اولاد ہے؟سن لو!اس رب کی قسم کھا کر کہنے لگا ہوں جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے،جوجان بھی پیدا ہوتی ہے وہ فطرت پر ہی پیدا ہوتی ہے اور اپنی فطرت اسلام پر ہی رہتی ہے جب تک کہ اس کی زبان وہ کچھ نہ بیان کرنے لگ جائے جو اس کے دل میں ہے۔
اگر صرف مندرجہ بالا واقعہ کو ہی مدنظر رکھا جائے تو آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونیوالی پانچ سالہ خولہ نامی بچی کے قاتل خدا کے حضور کون سے ’’اسباب و علل ‘‘ کی بنیاد پر نجات کے طالب ہوں گے۔سانحہ پشاور کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔یہ وحشت و بربریت کی انتہا ہے۔اسلام کے نام پر مسلمانوں کے نہتے اور فرضِ حصولِ علم میں مشغول بچوں کو کلمہ پڑھوا کے قتل کرنیوالے بغیر کسی لگی لپٹی کے اسلام کے باغی ہیں،اللہ کے باغی ہیں،رسول اللہؐ کے باغی ہیں،کتاب اللہ کے باغی ہیں۔اللہ اور رسولؐ کے باغی باغیوں کا ٹھکانہ صرف اور صرف جہنم ہے۔یاد رہے کہ ظلم اور ظالم کی حمایت کرنیوالا بھی اسلام میں ظالم ہی شمار ہوتا ہے اس رو سے ان باغیان اسلام (طالبان)کے حمایتی(ظاہری و پوشیدہ) بھی ظالم ہیں اور اس دنیاوی و آخروی پکڑ کے مستحق ہیں کہ جس کے یہ خوارج مستحق ہیں۔پاکستان کے اربابِ حل وعقد کو چاہیئے کہ جہاں وہ ان ظالمان باغیان اسلام کو کیفرکردار تک پہنچانے نکلے ہیں وہاں ان کے تمام حمایتیوں کی گوشمالی بھی ضروری ہے کیونکہ یہ حمایت پھر بھی کسی بھی وقت دوبارہ خوارج کو منظم کر سکتے ہیں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
سانحہ پشاور پر جہاں ایک جانب ابلیس کے روحانی فرزند،فرعون صفت درندے اور یزید کے حقیقی پیروکار تاریخ رقم کر رہے تھے تو دوسری جانب ہسپتالوں کی انتظامیہ کویہ اعلان کرنا پڑا کہ رضاکارانہ خون دینے والے واپس چلے جائیں کہ اب مزید خون کو محفوظ کرنے کی سہولت نہیں ہے۔سیاستدانوں نے اپنی انا کی لاحاصل اور لغو لڑائیاں پس پشت ڈال دیں ۔روحانی ماؤ ں نے حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کے اپنی روحانی اولادوں کیلئے عجب شان سے قربانیاں دیں اور شہادت کے عظیم الشان مرتبہ پر مسند نشیں ہوئیں ۔
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہوکر امر ہوئی طاہرہ قاضی
وحشت پر ممتا لے گئی بازی
جس طرح اس وقت ساری قوم یک جان ہے۔یہاں تک کہ ’’طالبان اور اپنا مقصد ایک قرار دینے والے‘‘اور ’’طالبا ن کو دفاتر اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے دعویدار‘‘بھی ان ظالمان کے خلاف قوم کی آواز کا حصہ بن کر متحد ہو چکے ہیں تو ایسے میں پاکستان کے ’’اربابِ حل و عقد‘‘ پر واجب ہے کہ وہ طالبا ن اور فکر طالبان سے مربوط ہر ایک کو جڑسے اکھاڑ پھینکیں۔تاکہ ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ افراد کا خون رزقِ خاک نہ ہو۔اس چمن پر ایسی بہار آئے کہ جسے خزاں کا احتمال نہ ہواور ایسے میں پھر ان شہداء کی عظمت کو یاد کیاجائے۔
ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئینِ گلستان میں
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے
اربابِ حل و عقد کو یہ بات یقیناًبدرجہ اتم معلوم ہے کہ کوئی بھی قومی و اجتماعی مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ساری قوم یک جان نہ ہو۔یاد رہے کہ اس دلدوز واقعہ سے قبل بھی عوام الناس دہشت گردوں کے خلاف متحد تھے لیکن اب یہ حقیقت حقائق سے نابلد مخصوص الفکر سیاستدانوں کوبھی سمجھ آگئی ہے۔اربابِ حل وعقد کا نیا نظریہ بھی مستحکم ہو چکا ہے کہ ’’اس وقت بیرونی دشمن سے زیادہ اندورنی دشمن سے خطرہ ہے۔‘‘ایسے میں ضروری ہے کہ ان ظالمان اور ان کے حمایتوں کی بیخ کنی جڑوں سے کی جائے ۔ ’’برے‘‘ اور ’’اچھے‘‘ میں تمیز کا زمانہ گزر گیا ہے،تزویراتی اثاثوں کے نعرے کی بہت زیادہ قیمت ادا کی جا چکی ہے۔اب صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ اس ’’ناسور‘‘ کا مکمل قلع قمع کیا جائے۔ ارض پاک کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے ایک رول ماڈل فلاحی مملکت بنایا جائے ۔ جہاں ظلم کی جا نہ ہو،جہاں جبر کی ہوا تک نہ ہو،جہاں سے جُہل کا گزر نہ ہو،جہاں ننگ اسلام و انسانیت رقصاں نہ ہوں۔
اختتام اس یقین کیساتھ انشاء اللہ
اے وطن خون میں ڈوبے تیرے پرچم کی قسم
تو نے جینا ہے قیامت کی سحر ہونے تک۔{jcomments on}
157