ففتھ جنریشن وار 229

ففتھ جنریشن وار

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایسی ایجادات کرتا رہتا ہے جس سے اس کا مال و جان محفوظ رہے اس سلسلے میں ویسٹ فیلیا کا معائدہ انتہائی اہم ہے جو 1648ء میں ہوا اس معائدے میں نیشن سٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی اس معائدے کے ذریعے یورپ میں جنگوں کا خاتمہ ہوا مختلف ریاستیں بنائی گئیں ریاست ایک ایک فرد سے مل کر بنتی ہے ریاست کی حفاظت پر بات آتی ہے تو ریاست ہر طرح کے اقدامات کرتی ہے جس سے اس کی عوام محفوظ اور معاشرہ پر امن رہے پاکستان کی بات کی جائے تو پچھلی کئی دہائیوں سے غیر روایتی جنگ لڑ رہے ہیں اس جنگ کے سبب پاکستان میں سینکڑوں افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے اس جنگ میں نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ پاکستان کو بھی زبردست نقصان پہنچا اس کا نقصان پاکستان کو یہ ہوا کہ حالات و واقعات اور جنگ کے نئے طریقوں سے یہ ملک بہت پیچھے رہ گیا خصوصی طور پر ففتھ جنریشن وارجو نظریاتی جنگ میں شمار ہوتی ہے پچھلے کئی سالوں سے ہم اس میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر پائے ہمیں اکثر سننے کو ملتا ہے پاکستان ففتھ جنریشن وار کو حصہ بن چکا ہے ففتھ جنریشن وار کو سمجھنے سے پہلے ہمیں پچھلی جنریشن وار کو جانناضروری ہے جو چیزتقریباََ دس بیس سال بعد آئے اسے جنریشن کہا جاتا ہے جنریشن آف ماڈرن وارفیئر کی تھیوری 80کی دہائی میں امریکی تجزیہ کاروں نے ایجاد کی جس میں سے ولیم ایس لینڈر کا نام سرفہرست ہے وہ امریکہ کے دائیں بازو کے اسپورٹ ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا مگر اس کے باوجود وہ امریکن دفاع کیلئے لکھتے ہیں انہوں نے جنگوں کو دیکھ کر اس تبدیلی کو مختلف جنریشن میں تقسیم کیاجب جنگوں میں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے ہو کر تلواروں سے لڑا کرتے تھے تو اس کو فرسٹ جنریشن وار کا نام دیا گیا انگلش سول وار (1651-1642)اورامریکہ کی جنگ آزادی (1783-1775)اس کی نمایاں مثالیں ہیں پھر جب بندوق اور توپیں ایجاد ہوئیں اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار کہا جاتا ہے سیکنڈجنریشن وار کی سب سے بڑی مثال پہلی جنگ عظیم (1918-1914)ہے سیکنڈ جنریشن وار کو فرینچ آرمی نے ترقی دی جوں جوں انسانوں نے ترقی کی راہیں ہموار کیں جنگی محاذ پر بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مگن رہے جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کا راستہ نکالا اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگے اس طرح کی جنگوں کو تھرڈجنریشن وار کا نام دیا جاتا ہے تھرڈجنریشن وار کی سب سے بڑی مثالیں دوسری جنگ عظیم (1945-1939)اور کوریا وار(1953-1950) ہیں تھرڈجنریشن تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں ایک ملک کی فوج کودوسری ملک کی افواج کا علم ہوتا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا جنگی محاذپر بھی نت نئے تجربات کئے گئے جو کامیاب رہے جنگ لڑنے کیلئے ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا کردار بھی اہم بن گیا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری معیشت اور پروپیگنڈہ کے ہتھیار بھی شامل ہو گئے اس طرح کی جنگ کو فورتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا فورتھ جنریشن وار کی مثال سرد جنگ کی ہے جس طرح سوویت یونین نے کئی ممالک میں یہ جنگیں اپنی فوجیں بھیجنے کے بجائے مقامی طاقتوں کے ذریعے لڑیں دوسری طرف امریکہ نے افعانستان میں نان اسٹیٹ
ایکٹرز کی حیثیت رکھنے والے مجاہدین کو اسپورٹ کرکے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی افعانستان‘عراق اور شام وغیرہ کی جنگیں اب تک نمایاں مثالیں ہیں ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح ڈیوڈ ایکس نے 2009ء میں ایک کالم میں دی ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے اس میں لوگوں کو ایک دوسرے کے سامنے لڑنے کی نوبت نہیں آتی ففتھ جنریشن وار ففتھ جنریشن وار میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کے بجائے سافٹ پاور کو استعمال کرتا ہے ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری پر اکسیز‘ٹی وی‘ریڈیو‘اخبار‘سوشل میڈیا‘ فلم اور معیشت ہیں یہ ذہن پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے پاکستان کئی سالوں سے اس جنگ کا حصہ ہے ہائیبرڈمیں فوجیں بھیجنے کے بجائے زیر نشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے براہ راست حملے کے بجائے پراکسیز کے ذریعے زیر نشانہ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے اور اس ملک کے اپنے شہریوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکسیزمیں تبدیل کیا جاتا ہے اب یہ اصطلاع بڑی شدت کے ساتھ پاکستان میں استعمال ہونے لگی ہے پاکستان اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ دشمن ممالک اور مختلف نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن اور چھیڑ دی ہے جس کے تحت ملک کے اندر مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصول فوج کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جا رہی ہے مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریق کو ہوا دی جارہی ہے اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست‘صحافت حتی کہ عدالت کو بھی اس ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے اور اسی کے تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پا رہی ہیں مبالغہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس حد تک ہم اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ مقابلہ کیسے کیا جائے سوچنا یہ بھی ہے کہ ہماری ریاست اس جنگ میں کس طرح جواب دے رہی ہے اور اسے کرنا کیا چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں