81

فالج زدہ تعلیم

أرٹس کی تعلیم اب فالج زدہ تعلیم ہو کر رہ گئی ہے جس طرح فالج کی بیماری والاشخص کسی کام کا نہیں رہتاوہ ایک جیتی جاگتی تصویر تو ہوتی ہے مگر کر کچھ نہیں سکتا یہی حالت أرٹس کی تعلیم کی ہو کر رہ گئی ہے پچھلے دنوں محکمہ تعلم میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے اشتہار آیا شرط یہ تھی کۃNTS ٹسٹ پاس کرنا لازمی ہے اور کافی عرصہ بعد حکومت نے آرٹس پڑھے لوگوں سے بھی درخواست جمع کروانے کی اجازت دے کر خصوصی مہربانی کا مظاہرہ کیا۔NTS ٹسٹ سے لے کر منتخب ہونے والے امیدوروں کو سیٹوں کی ألاٹمنٹ کے سفرتک ایک کرب امیز وقت گزرا جوتقریباتین ماہ پر مشتمل تھا۔ اب آج کی یہ چند سطریں لکھنے کا اصل مدعا یہ ہے کہ اس اپوائٹمنٹ میں جس بے انصافی اور بے توقیری کامظاہرہ آرٹس پڑھے خواتین و حضرات سے کیا گیا شائد تاریخ میں اس کی مثال کبھی نہ ملے ۔کیا منصف انضاف کرے گاکہ ایک امیدوار جوماسٹر ڈگری ہولڈر ہواور اس کے پاس مخکمانہ کورس بی۔ایڈ ،ایم ایڈ، وغیر ہ بھی ہو والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کر اپنی بچیوں کو محکمانہ کورس کرائے ہوں بوڑھی مائیں اپنی بیٹیو ں کے ساتھ امتحانات میں پھولتے سانسوں کے ساتھ جاتی ہوں اور ان کے اوپن یونیورسٹی کی پندرہ روزہ اور تیس روزہ و رکشاپ میں جاتی ہوں ا ور بسو ں اور ویگنوں کے دھکے اس خوش فہمی میں کھاتی ہوں کہ ان کی بیٹی مستقبل کی استانی بننے والی ہے۔مگر ان کی یہ عارضی خوشی اس وقت ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے اور ان کے سارے سپنے خاک میں مل جاتے ہیں۔جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ ریشید کی بیٹی جس نے پچھلے سال سائنس کے ساتھ بی اے کیااس کی تو نوکری لگ گئی ہے اسکی بوڑھی ماں نے تو کبھی بسوں اور ویگنوں میں دھکے بھی نہیں کھائے اس نے تو اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی تو نہیں کیا أج کی رات ان غریب ماؤں بیٹیوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہو گی اس ماں نے تو یہ رات بیٹی سے چھپ کر سسکیوں اور اہوں میں گزاری ہو گی کیونکہ اس کے سارے مان ٹوٹ چکے ہیں وہ تو بڑی شان سے بڑے فخر سے کہا کرتی تھی اس کی بیٹی ایم اے بی ایڈ ہے وہ تو استانی بننے والی ہے اس رات کا کرب جس میں ماں بیٹیاں ایک دوسرے سے چھپ چھہپ کر رو کر گزارتی ہیں فرنشڈدفتروں میں بیٹھے غیر سنجیدہ اور امیر لوگ کیا جانے۔اس وقت ان کے پاس سوائے حکومت کو بدعا دینے کے کچھ نہیں ہوتا۔ پرئمری سکولوں میں توبی ایس سی اور ایم ایس سی استاد لگا دئیے گے ہیں جو بچوں کو اردو میڈیم نصاب پڑھائیں گے تختی اور سلیٹ لکھائیں گے مگر کالجوں میں فزکس کمسٹری اور میتھ کے استاد موجود ہی نہیں ہیں کیا ہماری حکومت کے کرتے دھرتے اس بات سے بھی غافل ہیں کہ جس پرائمری سکول میں ایک یا ایک سے زیادہ لیڈی ٹیچر ہیں اور سکول بھی أبادی سے دوروہاں پر مرد استاد کو تعنیات کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کیا ایسا کرنے سے اخلاقی برائیوں کے جنم لینے کا خدشہ نہیں ہے پاکستان میں واحد محکمہ تعلیم ہی تھا جس میں خواتین و حضرات کے لیے الگ الگ ادارے ہیں اگر خواتین و حضرات نے اکٹھا ہی پڑھانا ہے تو حکومت کے لیے ایک مفت تجویز ہے کہ ان اداروں کو أپس میں ضم کر دیا جائے اور خالی ہونے والے اداروں کی اربوں کی جائیداد بیچ کر کروڑوں کا کمیشن کمایا جا سکتا ہے ایم ایس سی کرنا کوئی أسان کام نہیں اس میں دن رات کی محنت کے ساتھ ساتھ لاکھوں کا سرمایہ بھی لگتا ہے ان ذہیں لوگوں کو سکیل نمبر نو میں لگانا کہاں کا انصاف ہے وہ بھی پرئمری سکول میں۔ان کی ضرورت تو ہمارے کالجوں میں ہے جہاں پر ہر وقت سیٹ خالی ہی ملتی ہے مانا کہ سکیل سولہ اور چودہ کی بھی بھرتی کی گئی مگر NTSکے ذریعے یہ جو تخصیص کی گئی اور سولہ سالہ تعلیمی کیرئیر کو سو نمبر کے پرچے میں جانچناسوائے پیسے کمانے کے کچھ نہ تھا غریب عوام حکومت کے کرتے دھرتوں سے اپیل کرتی ہی کہ غریبوں کے ساتھ مذاق نہ کیا جائے خدا کی لاٹھی بے أواز ہے یہ نہ ہو کہ ان کی بد دعا تمارے محلوں کے کنگرے بھی ہلا دے کچھ لوگ دور سٹیشنملنے کی وجہ سے نہیں جائیں گے کچھ کی سکیل چودہ یا سولہ میں سلیکشن ہو گئی انہوں نے بھی کچھ سیٹیں خالی چھوڑنی ہیں کچھ شوقیہ چار چھ ماہ لگا کر چھوڑ دیں گے تو ان خالی ہونے والی سیٹوں پر فی الفور میرٹ لسٹ کے مطابق أرٹس والے خواتین و حضرات کو ترجیح بنیادوں پرتعنیات کیا جائے۔ ابھی سکولوں کے اندر بیشمار خالی سیٹیں موجود ہیں جو اشتہار میں نہیں أسکی ان کا سروے کر کے تمام أرٹس امیدواروں کوایڈجسٹ کیا جائے اور حکومت ان تمام اداروں کو جو محکمانہ کورس کروا رہے ہیں بشمول علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تمام محکمانہ کور س جن میں پی ٹی سی،سی ٹی،بی ایڈ اور ایم ایڈ شامل ہیں ان کو مزید کرانے سے وقتی طور پر روک دے جو لوگ تربییت یافتہ ہیں پہلے ان کو ایڈجسٹ ہونے دیا جائے کیونکہ یہ ادارے پیسے کمانے کی مشینیں بنی ہوئی ہیں ان کا کام ہر سال پیسے کمانے کی غرض سے نئی کھیپ تیار کرنا ہی نہیں بلکہ ان کا کام تربییت یافتہ لوگوں کے لیے مواقع پیدا کرنا ہے اور یہ اتنے ہی لوگوں کو تربییت دیں جتنو ں کے لیے مواقع موجود ہوں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں