38

غزل

دریا کو اپنی سمت بلانا پڑا مجھے
بنجر زمیں کو پھر سے بسانا پڑا مجھے
دنیا نے جب سے دشت ہتھیلی پہ رکھ دیا
پھر ایک ایک خواب بنانا پڑا مجھے
دنیا ترے وجود سے منکر نہیں ہوں میں
سو بار آ کے تجھ کو بتانا پڑا مجھے
آئینہ تیرے نقش دکھانے لگا شکور
پھر یوں ہوا چراغ ہٹانا پڑا مجھے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں