شہر خاموشاں میں کسی نے مجھ سے پوچھا تُو کون ہے
میں نے اپنا تعارف کرایا اس طرح میں پریشان ہوں
درد ہر کسی کو سانایا میں نے درد کسی نے نہ سنا میرا
یہ زندہ ہے لوگ سنتے کیوں نہیں اس بات پر حیران ہوں میں
در در کی ٹھوکر کھکائی میں نے اس طرح سے
جسم زخمی ہو گیا میرا غور سے دیکھو لہو لہو پانی ہوں میں
اپنے جسم کے زخم کی مرہم پٹی کی خاطر ڈاکٹر سے رجوع کیا
درد سے آہ نکلی میری درد سے کیونکہ آخر انسان ہوں میں
پھر مجھے آواز آئی ایسے جیسے مخاطب کیا ہو مجھ کو کسی نے
اظہر تیری آواز کون سنے مردہ لوگوں کا قبرستان ہوں میں
(اظہر جاوید‘گوہڑہ شریف)
