188

غریب کان کن بھی دہشتگردوں سے محفوظ نہ رہ سکے

بلوچستان کے ضلع دکی میں حالیہ واقعہ جس میں 20 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، پاکستان میں جاری دہشتگردی کی ایک اور المناک مثال ہے۔ اس واقعے سے نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر بھی غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے۔

اس حملے کی وجوہات میں سب سے اہم عنصر بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی ہے۔ مختلف عسکریت پسند گروپ، جیسے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان گروپوں کا مقصد بلوچستان کی آزادی یا خودمختاری حاصل کرنا ہے یا پاکستان سے علیحدگی ہے جس کے پیچھے پاکستان دشمن عناصر جیسے بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ وغیرہ ملوث ہیں۔ وہ اس کے لیے ریاستی اداروں اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

اس کے علاوہ، بلوچستان میں معدنی وسائل کی دولت بھی عسکریت پسندوں کے لیے ایک اہم محرک ہے، کیونکہ وہ ان وسائل پر قبضہ کر کے اپنے مالی وسائل کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں دہشتگردی کے کئی اسباب ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور حکومتوں کی تبدیلیاں دہشتگردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور عدم اتفاق بھی دہشتگردی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور معاشی ناہمواری بھی دہشتگردی کے اسباب میں شامل ہیں۔ جب لوگوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر انتہاپسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

مذہبی انتہاپسندی بھی دہشتگردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مختلف فرقوں کے درمیان نفرت اور عدم برداشت کے باعث دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات بیرونی ممالک کی مداخلت بھی دہشتگردی کے فروغ میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے دہشتگرد گروپوں کی مالی اور عسکری مدد کرتی ہیں، جس سے دہشتگردی کی جڑیں مزید مضبوط ہوتی ہیں۔
دہشتگردی کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، ایک مضبوط انٹیلیجنس نیٹ ورک قائم کرنا ضروری ہے تاکہ دہشتگردوں کی سرگرمیوں کی بروقت معلومات حاصل کی جا سکیں۔ انٹیلیجنس اداروں کو جدید ٹیکنالوجی اور وسائل فراہم کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے معاشی ترقی کے منصوبے شروع کرنا ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ حکومت کو ایسے منصوبے شروع کرنے چاہئیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کریں اور ان کی معاشی حالت کو بہتر بنائیں۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات لا کر نوجوانوں کو انتہاپسندی سے دور رکھنا ضروری ہے۔

تعلیمی اداروں میں امن و امان اور برداشت کے پیغامات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو انتہاپسندی سے بچایا جا سکے۔ بعض اوقات عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات بھی مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کر کے تشدد کے راستے کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ حکام کی ذمہ داریاں بھی بہت اہم ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور دہشتگردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکیورٹی فورسز کو جدید ہتھیاروں اور تربیت فراہم کر کے ان کی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو عوام
کے ساتھ قریبی رابطہ رکھ کر ان کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا چاہیے۔ عدلیہ کو دہشتگردی کے مقدمات کی فوری سماعت اور مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔

عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار رہ کر انصاف فراہم کرنا چاہیے تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔ میڈیا کو عوام میں شعور بیدار کرنے اور دہشتگردی کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو ذمہ داری کے ساتھ خبریں نشر کرنی چاہئیں اور عوام کو دہشتگردی کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
ان تمام اقدامات کے ذریعے ہی ہم دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں اور ملک میں امن و امان قائم کر سکتے ہیں۔

دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ اور عوام کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ صرف مشترکہ کوششوں سے ہی ہم اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنے ملک کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے مل کر کام کریں اور عوام کو بھی اس جدوجہد میں شامل کریں۔

عوام کی حمایت اور تعاون کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہو گا اور عوام کو بہتر زندگی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں