columns 191

غار حرا اور نبوت

رسول اللہ ؐخاتم النبین خود نبوت کے خواہش مند یا اس لئے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں آپؐ کو اس معاملے سے سابقہ پیش آگیا اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے جبریل علیہ السلام سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپؐ غار حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچے ہیں گھر والوں سے کہتے ہیں کہ مجھے اڑھاؤ مجھے اڑھاؤ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق حیات کو سارا ماجرہ سنا کر کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے وہ فوراََجواب دیتی ہیں کہ ہر گز نہیں آپؐ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گاآپؐ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں بے کسوں سہارا دیتے ہیں مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ہر کارخیر میں مدد کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں پھر وہ آپؐکو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان چچا زاد بھائی اور اہل کتاب میں سے ذی علم اور راست باز آدمی تھے وہ آپؐ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلاتامل کہتے ہیں کہ یہ جو آپؐ کے پاس آیا تھاوہی ناموس ہے جو موسیٰ کے پاس آتا تھا کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپؐکی قوم آپؐکو نکال دے گی آپؐپوچھتے ہیں کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟وہ جواب دیتے ہیں ہاں‘ کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپؐ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہو گئے ہوں‘ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپؐ نبوت کا پیغام لے کر اترے اس سے ایک دن پہلے تک آپؐ کی زندگی کیا تھی؟آپؐ کی مشاغل کیا تھے آپؐ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے؟آپؐ کی دلچسپاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں یہ پوری زندگی صداقت‘دیانت‘امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی اس میں انتہائی شرافت‘ امن پسندی‘ پاس عہد‘ادائے حقوق اور خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بناء پر کسی کے وہم و گمان میں یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنے والا ہے آپؐ سے قربت تریل‘ربط ضبط رکھنے والوں میں آپؐ کے رشتہ دار وں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپؐ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک لفظ تک آپؐ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غارحرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپؐ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے کسی نے آپؐ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصلاعات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپؐ سے سننے لگے کبھی آپؐ وعظ کرنے کھڑے نہ ہوئے تھے کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہیں اٹھے تھے بلکہ کبھی آپؐ کی کسی سرگرمی سے یہ گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ اجتماعی مسائل کے حل یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لئے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپؐ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے مہمانوں کی تواضع‘غربیوں کی مدد اور رشتے داروں سے حس سلوک کرتا ہے اور وہ کبھی بھی عبادت کرنے کیلئے خلوت میں جا بیٹھتا ہے ایسے شخص کو یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آ جانا اتنا بڑا تعبیر ہے جوانسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعاََ رونما نہیں ہو سکتا اس لئے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقادکے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو اگر آنحضرتؐ کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعویٰ لے کر اٹھنے والا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپؐپر ہر طرح کے اعتراضات کئے مگر یہ اعتراض کرنے والا کوئی ایک شخص بھی نہ تھا یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہو سکتی ہے اگر آنحضرت ؐ پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کونبی ہونا چاہیے اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپؐ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر ے سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیتے بلکہ اس کے بر عکس یہاں حالت یہ تھی کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں کانپتے اور لزرتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں ذرا دل ٹھہرتا ہے تو اپنی بیوی کو چپکے سے کہتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہر گز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہؓ نے دیا وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی مگر پندرہ برس کی رفاقت میں آپؐکی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بناء پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آ سکتا اور نہ اللہ اس کو کسی آزمائش میں ڈال سکتا ہے اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں