شاعر معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے جو معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ کسی علاقے‘خطے یا ملک کی پہچان اس کے ادباء و شعراء سے ہوتی ہے کہ وہ معاشرہ کیسا ہے۔ فی زمانہ جب تمام اقوام عالم میں ادبی و فکری حوالہ سے قحط الرجال ہے بالکل ایسے ہی ہمارے خطے پاک و ہند میں بھی صورتحال گومگو کا شکار ہے۔
مثبت رویوں کے حامل ادباء و شعراء کا ملنا ممکن نہیں ہے جو چند فیصد ہیں وہ ان حالات میں خاموشی اختیار کیے دم سادھے بیٹھے ہوئے ہیں۔اکثریت عوام اپنے علاقے جاتی ادب کی ترویج سے دستبردار ہو رہی ہے اور اس کا سبب غیر اخلاقی و غیر ادبی سرگرمیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔پوٹھوہار اور پوٹھوہاری ادب صدیوں کی اپنی تاریخ رکھتا ہے جو معاشرے کو صحت مند سرگرمیاں فراہم کرنے میں پیش پیش رہا ہے
یہاں بھی پچھلے کئی سالوں میں ادب اور ادبی محافل کی صورتحال مخدوش ہی رہی ہے۔اسی گھٹن زدہ ماحول میں ماضی قریب اور حال میں کچھ ادباء و شعراء کرام نے ترویج ادب کا بیڑا اٹھایا جس میں سرخیل رہنما کے طور پر جو نام سامنے آتا ہے وہ ہے ‘باوا محمد جمیل قلندر رحمتہ اللہ’ کا جو کہ بابائے پوٹھوہار کے لقب سے مشہور ہیں۔ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والے جمیل قلندر اپنے اوائل عمری سے ہی ایک الگ طبع اور مزاج رکھتے تھے
جن کو محسنِ پوٹھوہار ماسٹر دلپذیر شاد رح کی شفقت پدری میں پروان چڑھنے کا موقع ملا جنہیں شاعری اور ادب وراثت میں ملا آپ انور فراق قریشی رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہو کر شاعری کا شوق فرمایا۔آپ نے ادب کو وقت اور عزت دی اور ادب نے آپکو عزت و تکریم دے کر امر کر دیا۔ استادِ محترم نے جب شعر کہنے شروع کیے تو آپ نے استاد کی تلاش شروع کی آپ رحمتہ اللہ حضرت شیر زمان مرزا رحمتہ اللہ کے پاس حاضر ہوئے جنہوں نے آپ کو جہلم شہر میں فخر ایشیا حضرت اللہ دتہ جوگی جہلمی ؒ کے پاس بھیجا آپ وہاں سے دست تلمیذ ہوئے اور تادمِ مرگ آپ جہلم کو صرف جہلم نہیں کہتے تھے بلکہ جہلم شریف کہتے تھے۔
شعراء کرام میں سائیں فیاض ویران مدظلہ اور قاضی عجب ضیاء مرحوم و مغفور اور ڈاکٹر غضنفر دکھی مرحوم سے دوستی تھی آپ کا گھر چونکہ کلرسیداں شہر میں واقع تھا آپکے والد محترم پوٹھوہار کے حوالے سے ٹی وی اور ریڈیو کے بڑے شاعر تھے اور آپ کا گھر پوٹھوہاری ادیبوں کا ”ٹی ہاؤس” تھا اسی ماحول میں پرورش پائی وقتاً فوقتاً اپنے کلام سے نوعمری میں ہی شہرت پائی اور باواجی کے لقب تک پہنچنے میں آپ کو صرف سولہ سال لگے سولہ سال کی عمر میں ہی لوگ آپ کو باوا جی سرکار کہتے تھے۔
آپ نے چودہ سے سولہ مختلف زبانوں میں طبع آزمائی کی آپ کے اشعار میں بڑے بڑے ماہرین عروض بھی نقص یا کجی نہ نکال سکے۔استادِ گرامی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے آپ جو کام ایک بار دیکھ لیتے دوسری بار خود کرلیتے جس کا راقم الحروف خود عینی شاہد ہے۔اشعار کی بہتات کا اندازہ ورود کی روانی سے ہوتا ہے اور استاذ مکرم جنابِ جمیل قلندر ؒ کے وجدان میں بحر حروف بالترتیب اپنی لہروں سے موجزن سمندر کی طرح ہمہ وقت دست بستہ سرخم کھڑے رہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔
راقم الحروف اسی بحر علم کی روانی سے بہرہ مند ایک ادنی و حقیر سا قطرہ ہے جسکی طغیانی ء طبع نے بڑے بڑے خود ساختہ و خود سر پہاڑوں کو خس و خاشاک کی طرح
اپنی لہروں کی طغیانی میں بہا کر کہیں گم گشتہ کردیا ہے۔خطہ پوٹھوہار اور پوٹھوہاری ادب صدیوں سے اپنی بھرپور توانائیوں سے تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھانے میں مصروف عمل ہے۔انیسویں صدی کے اوائل میں ہندکو سرزمین ادب سے ایک نایاب تخلیق کار ایک نابغہ روزگار شخصیت کا راولپنڈی میں جو کہ پوٹھوہار کا مرکز و محور ہے قیام ہوا جس نے پوٹھوہار اور پوٹھوہاری ادب کو ہمیشہ کے لیے باغ و بہار کردیا
پوٹھوہاری ادب چومصرعہ/چار بیت تک محدود تھا لیکن اس شخصیت کی تشریف آوری کے بعد مروجہ علوم و بحور اور اصناف سخن میں شعراء کرام نے طبع آزمائی کی جس میں سی حرفی اور چوبرگہ سب سے زیادہ مشہور و معروف ہوئے اس کی وجہ تھی عربی و فارسی الفاظ و تراکیب جن کے تڑکے سے تشنگانِ علم و ادب کا مزا دوبالا ہوا اور اس شاعر بے بدل کا نام تھا احمد علی ایرانی پشوری رحمتہ اللہ اور تخلص سائیں اور سائیاں تھا اسی سائیں احمد علی ایرانی
پشوری رحمتہ اللہ کی وجہ سے پوٹھوہار کو اور پوٹھوہاری ادب کو اقوام عالم میں بلندیاں اور انفرادیت نصیب ہوئی۔سائیں رح اور انکے شاگردوں کا چرچا پورے ایشیاء میں ہوا جس کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کے ایک شاگرد جن کا ذکر بین السطور ہوچکا ہے کو امرتسر مشاعرہ 1941 میں فخر ایشیا کا لقب دیا گیا۔انہی حضرت اللہ دتہ جوگی جہلمی رح کے شاگرد باوا جمیل قلندر رحمتہ اللہ کو بابائے پوٹھوہار کا لقب سرائیکی وسیب کے شعراء کرام نے عنایت کیا۔بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر رح سے راقم کی شناسائی سنہ 1997 میں ہوئی
جو سنہ 2000 میں شاگردی سے مضبوط تر ہو کر تادمِ مرگ استاد سرکار یہ رفاقت روز بروز پروان ہی چڑھتی رہی راقم الحروف نے ادب کے حوالے سے جو کچھ بھی سیکھا وہ اپنے مرشدِ کامل حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ اللہ اور جنابِ بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر رحمتہ اللہ سے سیکھا ہے۔استادِ محترم ایک قادر الکلام شاعر تھے۔کلام کی پختگی‘روانی اور عروض میں ملکہ رکھتے تھے
آپ بلاشبہ ایک بلند پایہ استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ نے زیادہ شاعری نعت شریف میں کہی اس کے بعد آپ کا پسندیدہ موضوع تھا شان اہلبیت اطہار سلام اللہ علیہ میں آپکی شاعری کو پوٹھوہاری و پنجابی زبان کے استاد شاعر جنابِ غلام محی الدین مونس نقشی ؒ کے ہم پلّہ تصور کیا جاتا ہے۔آپ نے اپنے تخلص کی طرح طبیعت بھی قلندرانہ پائی تھی جیسے آپ کی شاعری جامع اور زور دار تھی ویسے ہی انداز بیان بھی اتنا زوردار تھا کہ مشاعروں میں آپکی آمد مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا
۔استادِ محترم متناسب قد و قامت اور فربہ جسم کے مالک تھے سنت کے مطابق داڑھی مبارک‘ دراز گیسو اور سر پر سندھی ٹوپی کے اوپر پگڑی‘شلوار قمیض پہنتے تھے۔ دو چاندی کی انگوٹھیاں بڑے نگ والی پہنتے تھے۔کبھی بھی شعر میں یا عمومی و خصوصی گفتگو میں حرفِ اضافی استعمال نہیں کرتے تھے بے معنی و مفہوم اشعار و گفتگو کو پسند نہیں کرتے تھے۔کبھی کبھار حقہ پیتے اور کبھی کبھی بٹیر بھی رکھتے تھے۔ شاگردان کے ساتھ رویہ انتہائی
مشفقانہ رکھتے تھے جب بھی کوئی بات سمجھانی مقصود ہو تو انتہائی اعلیٰ و مدلل انداز میں سمجھاتے تھے۔
اپنی والدہ محترمہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کے بعد اپنے دونوں بیٹوں سے انتہائی محبت تھی۔ ادب اور ادب کی ترویج تمام زندگی اوڑھنا بچھونا رہا جس کے اہلیان پوٹھوہار معترف ہیں۔جس کا ثبوت پچھلے ہفتہ کے روز چوکپنڈوری شہر میں ایک محفل مشاعرہ بسلسلہ جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم و برسی بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر رحمتہ اللہ منعقد ہوئی
جس میں پوٹھوہار کی عوام الناس نے بھرپور انداز میں شرکت فرما کر یہ ثبوت دیا کہ ہم اہلیان پوٹھوہار اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔محفل مشاعرہ میں صدارت شاعر کوہسار بابو جمیل احمد جمیل نے کی اس کے علاوہ جنابِ محمد نصیر زندہ‘ جنابِ یاسر کیانی مہمانان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے جبکہ باقی شعراء کرام میں
طاہر یسین طاہر‘بدرالزمان کیانی‘ خان الیاس خان‘ راجہ افتخار ملنگی‘ راجہ منظور منظر‘ قمر افضال اعوان‘ جہانگیر فکر جہلمی‘ ساقی جہلمی‘ شکیل مرشد کیانی‘ نوازش امبر کیانی‘ جاود فیاض کیانی‘ تیمور طاہری‘ احتشام شعور بھٹی‘ اظہر محمود رہبر‘ عمیر فیضی کیانی‘ ابراہیم مجذوب‘ محسن علی محسن‘ سیف الرحمن نیام‘ نعمان ناصح‘ افتخار مغل‘سائیں ثاقب محمود اور میزبان مشاعرہ جنابِ آصف محمود آصف نے اپنا کلام پیش کر کے سامعین سے بھرپور انداز میں داد وصول کی۔
مشاعرہ کی نظامت کے فرائض راقم الحروف اور راجہ غلام قنبر نے ادا کیے۔ جبکہ معاونین و انتظامیہ نے اعلیٰ و منظم کارکردگی پیش کرکے پروگرام کو پوٹھوہار کا منفرد ترین اور کامیاب ترین پروگرام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاذ مکرم و محترم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرما کر درجات بلند فرمائے۔ اور ہم تلامذہ کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
03015049210