سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں جو ذلت اٹھا نی پڑ ی اس سے ہر پاکستانی زخم خوردہ تھا اپنے وطن عزیز کی حالت زار پر آنسو بہانے والے کروڑوں پاکستانیوں میں ایک نام عبدالقدیر خا ں کا بھی تھاجو اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے۔ انہوں نے ٹیلی و یثرن پر سقوط مشرقی پاکستان کی فلم دیکھی تو اس سانحے نے اُن کے دل میں مادروطن کی محبت مزید گہری کر دی۔18
مئی 1974کو ہندو ستا ن نے پہلا ایٹمی دھاکہ کر کہ یہ ثابت کردیا کہ باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت بھی اب اس کے ر حم وکرم پر ہے ہندوستان کی جا نب سے یہ ا یسی پیش رفت تھی کہ مادر وطن کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والا ہر شحص پر یشان اور رنجیدہ ہوگیاان حالات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ما یوس ہو نے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستا ن ذوالفقار علی بھٹو کو براہ راست خط لکھا اور بتایا کہ انہو ں نے صرف مسٹالرجی میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل ہی نہیں کی بلکہ وہ اس شعبہ کے ماہر اور لاتعداد تحقیقی مضامین کی ایک عالمی سند یا فتہ کتا ب کے مصنف بھی ہیں۔
اس خط میں ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن نے یہ بھی بتا یا کہ وہ یو ر نیم کی افز و دگی جیسے پیچیدہ اور مشکل ترین کا م میں بھی مہا رت رکھتے ہیں اورہالینڈ میں ایک ایسے ہی منصوبہ سے وابستگی میں جس کا مقصد بینٹری فیوج سسٹم کے ذریعے یورینیم کی افزودگی ہے کیو نکہ اس طریقے سے کم خرچ میں ایٹمی تو انا ئی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے اسی طریقے کو بروئے کا ر لاکر بہت کم عر صہ میں ایٹمی صلا حیت حا صل کی جا سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹونے ہا لینڈ میں منتقل پا کستانی سفیرکے ذریعے ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن کو پیغام بھیجوایا کہ وہ جب پاکستانی تشریف لائیں تو مجھ سے ضرور ملاقات کریں،دسمبر 1974میں جب عبدالقدیر خان کو پاکستان تشر یف لائے
تو انہوں نے ذ والفقار علی بھٹو سے ملاقات کر کے بتا یا کہ سڑی فیوج ہا لینڈ کے ذریعے پا کستا ن بہت جلد ایٹمی طاقت بن سکتا ہے یہ سنتے ہی ذوالفقار علی بھٹو چونک پڑے اور یہ سوچنے لگے کہ جو سنٹیر ی فیو ج پلا نٹ بر طا نیہ جر منی اورہالینڈ کے اشتراک سے بیس سال سے زائد عر صہ میں دوکھرب ڈالر سے پچیس ہزار سے زائد سائنس دانو ں اور انجینئروں نے قائم کیا ہے اسے پاکستان جیسا غریب ملک کیسے حاصل کر سکتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ذوالفقار علی بھٹو کا اعتماد حاصل کرنے اور انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے اس پر ذو الفقار علی بھٹو اتنے خوش ہو گئے کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فوری طور پر اس منصوبے پر کا م کرنے کے لئے کہہ دیا 31
جو لا ئی 1976 کو وزارت دفا ع میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی براہ راست نگرانی میں انجینئرنگ ریسرچ لیبا ر ٹر یز کہو ٹہ کو مکمل اختیا رات کے سا تھ خور مختار منصوبہ کی حیثیت دے دی گئی جس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک نئے عزم اورولو لے کے ساتھ کا شروع کر دیا تجر با تی پلا نٹ کی تفصیلا ت کے علا وہ کہو ٹہ پلا نٹ کے تفصیلی نقشہ جا ت بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ہا تھو ں سے بنا رہے تھے
ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن اور ُان کے رفقا اٹھا رہ سے بیس گھنٹے روزانہ کا م کر رہے تھے 1978میں جب یو رینیم افزودگی کا تجربہ کا میا ب ہو گیا تو ا مریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے پاکستان پر دبا ؤ بڑھا دیا وہ اپنے ایٹمی پروگرام میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے کی نگرانی اور تحفظا ت کو تسلیم کریں مگر جنرل محمد ضیا ء الحق نے امریکی دبا ؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا نیو یارک ٹا ئمرکی گیا رہ اگست 1979ء کی اشاعت میں یہ خبرشا ئع ہو ئی کہ امریکی انتظامیہ نے پا کستا ن کے یو ر ینیم انر جمنٹ پلا نٹ کو تبا ہ کرنے کے لئے یقین متبادل صور توں پر غور
شرو ع کر دیا ہے
جن میں اسے سبو تاژ کرنا یا کما نڈ و ایکشن کے ذریعے اڑا دینا شامل ہے یہ خد شہ بھی ظاہر کیا گیا کہ پا کستا ن کے ایٹمی ٹیکنالو جی کے خا لق ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن کو ہلا ک بھی کیا جا سکتا ہے ہندو ستا ن ٹا ئمز نے بھی یہ خبر شائع کی کہ اگر ہندو ستا ن چودہ دنوں میں مشر قی پاکستان کو فتح کر کے بنگلہ دیش بنا سکتاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کہو ٹہ پروجیکٹ کو چو دہ منٹوں میں تبا ہ نہ کر سکے حالانکہ عالمی طاقتیں تیزی سے پاکستان کے گرد سازشوں کا جا ل بچھا ر رہی تھیں اس کے با وجو د جنرل محمد ضیا ء الحق نے حوصلہ نہ ہارا۔ امریکہ اور اسرائیل کی جا نب سے دبا ؤ کی بنا پر ڈاکٹر وعبدالقدیر خا ن پرہا لینڈ میں جعلی مقدمہ دائر کیا گیا
لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزام ثابت نہ ہو سکا ایٹم بم کے کو لڈٹیسٹ 1983ء میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکے تھے اب اگلا مرحلہ صرف عملی ایٹمی دھماکوں کا باقی تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی میدان میں زبر دست کا میابیوں کے بعد مزائیل ٹیکنالوجی کی جانب توجہ مرکوز کی اور وطن عزیر کوغوری‘ شاہین اور غزنوی جیسے مہلک اور جدید ترین میزائلوں کا تحفہ بھی دے دیا جس کی وجہ سے دفاعی میدان میں ہندوستان کا مقابلہ کرنے کی ہمت پاکستان کو حاصل ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں کہ بش کی گود میں بیٹھنے سے پہلے پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اللہ تعالی نے ہماری دعائیں قبول کر لی ہیں اللہ کو ہماری حالت پر رحم آگیا اور ایک معجزہ رونما ہوا پر وہ غیب سے ایک باند قامت اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان کا ظہور ہوا اور وہ نابغہ روزگار شخص ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جنہوں نے تن تنہا پاکستانی قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا پاکستان کے نامور صحافی جبار مرزا اپنی کتاب پاکستان کا آخری بڑا آدمی میں لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی انکارنہ کرتے توڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے سپرد کیا جانے لگا تھا بعد ازاں پر ویز مشرف نے ٹیلی ویثرن پر معافی منگوانے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کردار کشی کے لئے ایک الگ ونگ قائم کیا تھا
اس ونگ کے ایک رکن نے جبارمرزا سے رابطہ کر کے کہا آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں ہے اورگھر بھی کرائے کا ہے پھر کہا بحریہ ٹاؤن میں ایک کنال کی ڈبل منزل کو ٹھی آپ کے لئے موجود ہے اور آپ کو دو تین سالوں کا پیٹرول اور گاڑی بھی دے دی جائے گی لیکن اس کے بدلے ایک کتاب جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو سے زیر وبنانے کے لئے لکھی گئی ہے اس پر آپ کا نام لکھنا ہے جبار مرزانے جب انکار کیا تو وہ شخض اتنا سامنہ لے کر واپس چلاگیا سچ تویہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے عظیم ایٹمی سائنس دان اور محسن پاکستان کو ایک مجرم بنا کر اپنے ہی گھر تک محدود کر دیا گیا تھا بلکہ مشرف دور میں بلیک واٹر کے لوگ کمال کے گھر تک جاپہنچے تھے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر میں جا سوسی کے آلات بھی نصب تھے جب جیوٹی وی کی جانب سے سہیل وڑائچ انٹرویو کرنے کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر پہنچے تو جیوٹی وی کے زریعے ساری دنیا نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انٹرویو ریکارڈ کر ایا تھا اس سے زیادہ ایک قومی ہیرو اور محسن کی توہین اور کیا ہو سکتی ہے ہندو ستان نے اپنے ایٹمی سائنس دان کو اپنے ملک کا صدر بنا کر عزت افزائی کی لیکن ہم نے اپنے محسن سے اس کی آزاد ی بھی چھین لی
پھر وہ لمحہ بھی آپہنچاکہ دس اکتوبر 2021کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ایسے جہاں میں جابسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ٹی وی پر سلائیڈ یہ چلائی گئی کہ انہیں فیصل مسجد کے احاطے میں شایان شان طریقہ سے دفن کیا جائے گا لیکن سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک عظیم قومی ہیرو کی تدفین ایچ کے قبرستان میں نہایت خاموشی سے کر دی گئی نمازجنازہ میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سمیت کئی حکومتی عہدیداروں نے شریک ہونے کی
ضرورت محسوس نہیں کی اس سے زیادہ محسن کشی اور کیا ہوتی ہے؟