محمد عتیق فرہاد
وفاقی دیہی حلقہ این اے 49کے سیاسی تناظر میں اگر مقامی اور قومی سطح کی اخبارات ،جرائد کی شہ سرخیوں اور رپورٹس کو بغور پڑھا جائے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی ضلع کا یہ دیہی آبادیوں کا حلقہ بنیادی سہولیات تعلیمی اداروں ،مراکزصحت، ذرائع آمدورفت،پینے کے صاف پانی مثلاواٹر سپلائیز ،سیوریج سسٹم ،سوئی گیس فراہمی وغیرہ میں مکمل خود کفیل ہو چکا ہے ۔مگر حقائق اس کے برعکس ہیں مذکورہ تشہیری بیانات،بلند بانگ دعووں کے سوا کچھ نہیں ہے۔حالیہ وفاقی ضلع کے بلدیاتی ا نتخابات کے نتیجے میں بنائی گئی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے مئیر چئیرمین سی ڈی اے بننے کے بعد اپنے فرائض کو مکمل بھلاتے ہوئے اپنے
اختیارات کی سرد جنگ میں مصروف ہو گئے ہیں ،اختیارات کے استعمال کی یہ جنگ پس پردہ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹرطارق فضل چوہدری اور مئیر اسلام آباد شیخ انصر عزیز کے درمیان ہے جس میں رگڑا غریب عوام اور منتخب دیہی حلقہ کے اکثر بلدیاتی نمائندوں کو لگ رہا ہے وفاقی ضلع میں بلدیاتی آرڈیننس جو قومی اسمبلی وسینیٹ نے پاس کیا جس میں وزیر کیڈ نے اپنی منشاء کے لیے چند حکومتی عہدیداران کو اعتماد میں لیتے ہوئے تبدیلیاں کروائی گئیں کہ وفاقی ضلع میں ان کی طوطی بولے کہ جو گزشتہ ساڑھے آٹھ سالوں میں عوامی اعتماد کو بحال نہ رکھ سکے تھے اس کو کسی طریقے سے بہتری لائی جاسکے جس کے لیے انہوں نے اپنے چہیتوں کو من منشاء سے بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹ بھی جاری کروائے ان کے اس اقدام سے چند لیگی کارکنان رنج بھی ہوئے ،علاوہ ازیں وزیر کیڈ اپنے حلقہ احباب کا مکمل گروپ جس میں ٹیکنو کریٹ سیٹ،ڈپٹی مئیرز کے لیے انہوں نے نامزد گیاں بھی کر رکھی تھیں جس کا مقصد وفاقی ضلع میں اپنا راج قائم کرنا تھا چوں کہ مذکورہ نامزدگیوں میں وہ صاحبان شامل کیے گئے تھے جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ لینڈ مافیا سے تعلق تھا ۔مزید برآں یہ کہ جب شیخ انصر عزیز کو میاں صاحب کی فیملی سے دیرینہ قربت و والدہ کی نصیحت پر اختیارات سونپنے کو کہا گیا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر شیخ انصر عزیز جو کاروباری حلقہ میں جانے پہچانے جاتے تھے کو مئیر اسلام آباد بنا دیا جو وزیر کیڈ صاحب کی خواہشات پر پانی پھیرنے کے مترادف تھا مگر اس کو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ یہ ان کے پارٹی صدر،وزیراعظم پاکستان کا حکم تھا الغرض اس کے بعد سی ڈی اے کا چئیرمین بنا کر مئیر اسلام آباد کو دوہرے اختیارات سے نواز دیا گیا جس پر ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،کی ضرب المثل صادق آتی ہے وہ اس طرح کہ بیوروکریٹس کے تمام اختیارات سیاہ سفید کرنے کے موصوف کو دے دئیے گئے جن کی وجہ سے وہ اپنے فرائض میٹروپولیٹن کارپوریشن میں اصلاحات سے بہت دور ہوگئے اور وہ سی ڈی اے کے انتظام و انصرام کرنے کی درپے ہو گئے ۔اب سی ڈی اے کے ادارہ کو کرپشن سے بچانے کے لیے ان کی تجاویز میں کنٹرول اتھارٹی بنانے کے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جائے اور وفاقی ضلع کے ترقیاتی منصوبہ جات میں ہاتھ بٹائے جائیں ،ان حالات معاملات کے پیش نظر وزیر کیڈ اپنی منشاء پر کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔دوسری طرف بالخصوص وفاقی دیہی حلقہ عوام پریشانی کا سامنا کر رہی ہے وہ اس وجہ سے کہ بلدیاتی نمائندوں جن کو عوام نے بلدیاتی مسائل کو حل کروانے کی غرض سے منتخب کروایا تھا کہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی سے عام فرد کو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہو گا یہ عوام کا خواب ادھورے کا ادھورہ رہ گیا ،وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی وزارت اختیارات ہونے کے باوجود آج بھی وفاقی نظامت تعلیمات کے چاروں دیہی تعلیمی سیکٹرزنیلور،بارہ کہو،ترنول اور سہالہ کے طلباء و طالبات اساتذہ کی کمی ،ٹرانسپورٹیشن،سیکیورٹی سسٹم کے بنیادی سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں چاروں تعلیمی سیکٹرز میں ساڑھے 13سو سے زائد منظور شدہ نشستیں خالی ہیں نیز ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے اساتذہ ابھی تک عدلیہ پر آس لگائے بیٹھے ہیں ،پچھلی حکومتوں کے منظور شدہ ترقیاتی منصوبہ جات فنڈز نہ میسر ہونے کی وجہ سے التواء کا شکارہیں ،مراکز صحت میں ڈاکٹرز کی تعیناتیاں و دیگر عملہ اور آلات و ادویات کے بنیادی مسائل درپیش ہیں ۔وزیر کیڈ صاحب کو ملنے والے وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے صوابدیدی فنڈ ز جو سوئی گیس فراہمی کے لیے تھے فقط اعلانات کے سوا کچھ نظر نہیں آرہے چوں کہ حلقہ میں بنیادی سہولیات کا وہی فقدان جوں کا توں ہی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ بلدیاتی مسائل کو وزیر کیڈ اور مئیر اسلام آباد حل کرپانے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یا کہ اپنی اپنی کھینچا تانی میں لگے رہتے ہیں ۔{jcomments on}