174

صدق و وفا کی پیکر‘ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ

تاریخ اسلام نے اسلام کے ان اوّلین وفا شعارُوں کو خصوصی طور پر یاد رکھا ہے جنہوں نے اس عہدِ ستم میں ہر جفا کا سامنا بڑی عزیمت کے ساتھ کیا۔ سابقون الاوّلون میں سے جن سعید ارواح نے سرورِ کونین ﷺ کی دعوت ِالی الحق پر لبیک کہا ان میں سرِ فہرست حضرت سیدہ خدیجہؓ ہیں۔

آپؓ مکہ مکرمہ کے معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، دورِ جاہلیت ہی میں آپؓ کا لقب ”طاہرہ“ تھا۔ اپنے کردار، اخلاق، شرافت، عفت، صدق، وفا اور ہر وہ خوبی جو ایک خاتون کو بارگاہِ رب ذوالجلال میں پسندیدہ بناتی ہے وہ آپؓ کی ذاتِ اقدس میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان تمام شخصی کمالات کے علاوہ آپؓ ایک کامیاب تاجرہ بھی تھیں اپنی خاندانی وجاہت اور سماجی وقار کے اعتبار سے اس جاہلی عہد کی عظیم خاتون تھیں۔

آپؓ کی تجا رت ہی کی وجہ سے آپؓ کا حضورِ اکرم ﷺ سے رابطہ ہوا۔ جب سیدہ خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کی صداقت و دیانت اور دیگر محاسن کے چرچے اطراف سے سنے تو حضورِ اکرم ﷺ کو اپنے ساتھ تجارت کرنے کی پیشکش کی، جسے نبی کریمﷺ نے قبول کیا

اور مضاربت کے اصولوں پر آپؓ کے مالِ تجا رت کو لے کر ملکِ شام کی منڈیوں میں گئے۔ حضرت سیدہ خدیجہؓ کے خدام نے حضورِ اکرم ﷺ کی تجارتی طریقوں کو بغور ملاحظہ کیا اور جو نفع اور برکات حاصل ہوئیں ان کا ذکر سیدہ خدیجہؓ سے کیا۔ جس کے بعد سیدہ نے آپﷺ کو اپنے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجا۔ جسے حضورِ اکرمﷺ نے اپنے خاندانی بزرگوں سے مشاورت کے بعد قبول کیا۔

نکاح کے وقت حضورِ اکرمﷺ کی عمر مبارک 25 برس اورحضرت سیدہ خدیجہؓ کی عمر 40 برس تھی۔ حضرت خدیجہ سے حضورِ اکرمﷺ کی چار صاحبزادیاں حضرت سیدہ زینبؓ، حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ، حضرت سیدہ فاطمہؓ اور دو بیٹے حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ پیدا ہوئے۔

پہلی وحی کے بعد حضورِ اکرم ﷺ جب ایک خاص حالت میں غارِ حرا سے گھر تشریف لائے تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہ ہی سے سارا معاملہ بیان فرمایا۔ حضرت سیدہ خدیجہؓ نے جن الفاظ سے نبی پاکﷺ کو تسلی دی وہ سماجیات واخلاقیاتِ سیرت کی بنیاد ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اللہ آپ ﷺکو ہرگز غمزدہ نہیں کرے گا کیونکہ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،

محروموں کو عطا کرتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں اور راہِ حق میں آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں“۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ابھی نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلام کی دعوت نہیں دی لیکن پیغمبرِ اعظم کی رفیقہ حیات حضرت سیدہ خدیجہؓ اللہ کی قسم اٹھا کر اللہ کا نام لے رہی ہیں، یہ ذاتِ رسالت کے ساتھ رفاقتوں کا فیض ہے جو آپؓ کو منہ سے کلماتِ خیر ہی ادا ہو رہے ہیں۔

غار ِحرا میں ایک بار حضرت خدیجہؓ نبی پاکﷺ کیلئے کھانا لے کر آ رہی تھیں تو ان سے قبل حضرت جبرئیل امین تشریف لے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہﷺ! خدیجہؓ آ رہی ہیں ان کو جنت میں ایک ایسے محل کی خوش خبری دیں جو موتیوں والا (بہت خوبصورت) اور نہایت پرسکون اور شاندار ہے۔نبی کریم ﷺ کی حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پچیس برس رفاقت رہی ان کی موجودگی میں آپ ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔

جس سال حضرت سیدہ خدیجہؓ کا وصال ہو ا تو آپ ﷺ بہت مغموم ہوئے جس وجہ سے اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ”نبی کریم ﷺ اکثر حضرت خدیجہ کو یاد کر کے اشک بار ہو جایا کرتے، میں عرض کرتی کہ شاید خدیجہؓ کے برابر دنیا میں کوئی عورت نہیں تو آپ ﷺ فرماتے بے شک خدیجہؓ ایسی ہی (باکمال و صفات محمودہ والی) تھیں

کیونکہ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انھوں نے میری تصدیق کی، جب لوگوں کا رویہ درست نہ تھا تو خدیجہؓ نے میرے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔

یہ حضرت سیدہ خدیجہؓ کی عظمت و توقیر ہے کہ سید العالمینﷺ ان کی رحلت کے بعد جانور ذبح کرتے تو سیدہ کی سہیلیوں کو بھی بھیجتے، سیدہ سے جڑے رشتوں اور نسبتوں کا ہمیشہ لحاظ کرتے۔ آپﷺ فرمایا کرتے: ”بے شک مجھے ان کی محبت عطا کی گئی ہے

“۔حضرت سیدہ خدیجہؓ کا نبی پاکﷺ سے حسنِ سلوک امت پر احسان ہے کہ اسلام کے اولین مشکل ترین دور میں آپ جس جرات و استقامت کے ساتھ سرورِ کونین ﷺکے ساتھ راہِ حق پر ڈٹی رہیں یہ انھی کا طرہ امتیا زہے جبکہ اس نازک عہد میں دیگر قبائل تو ایک طرف آپﷺ کے کئی اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے

لیکن اسلام کی اس خاتون اوّل، مومنہ اوّل اور رسولِ خدا ﷺ کی منکوحہ اوّل نے ہر موقع اور ہر لمحہ پر ایک وفا شعار زوجہ ہونے کا ایسا حق ادا کیا کہ جس کی نظیر ممکن نہیں۔ایک مسلمان خاتون کے بنیادی فرائض کیا ہیں، وہ کس طرح گھر اور سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے سیدہ خدیجہؓ سے بڑی مثال کوئی نہیں۔

سورۃ الاحزاب میں ایک صالح خاتون کی جو آٹھ خوبیاں قانتات، صادقات، صابرات، خاشعات، متصدقات، صائمات، حافظات اور ذاکرات کا ذکر ہوا ہے۔ قناعت، صدق، صبر خشیعت، صدقہ و خیرات، صوم و صلوۃ، عفت و عصمت، ذکر و اذکار، ان سب کی جامع حضرت سیدہ خدیجہؓ کی ذات تھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک خا تون کے حوالے سے ان قرآنی بیان کردہ اوصاف کی مجسم تفسیر حضرت سیدہ خدیجہ کی ذات تھی

تو مبالغہ نہ ہو گا۔حضورِ اکرم ﷺ کے حضرت سیدہ خدیجہ کے ساتھ نکاح کے اور بھی چند خاص پہلو ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا جب حضرت سیدہ خدیجہ سے نکاح ہوا تو وہ آپ ﷺ سے پندرہ برس بڑی اور بیوہ تھیں۔

اس سے آپ ﷺ نے یہ اسوہ دیا کہ اگر منکوحہ عمر میں بڑی ہو یا بیوہ ہو تو یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جو عائلی زندگی کو خوشگوار نہ رکھ سکیں۔ عصری معاشروں میں بڑی عمر کی خواتین سے نکاح، بیوہ اور معاشی سرگرمیوں میں مصروف خواتین سے نکاح کے حوالے سے کوئی بہتر صورتِ حال نظر نہیں آتی۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہؓ کا نکاح ان تمام اور دیگر عائلی زندگی کے پہلوؤں کو درست رکھنے کے لیے روشن مینار ہے۔

اس کے علاوہ حضرت سیدہ خدیجہؓ کی موجودگی میں آپ ﷺ کا عقد ثانی نہ کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ دوسری شادی کرنا لازمی معاملہ نہیں ہے، اگر ایک بیوی کے ساتھ آپ کو ذہنی، عائلی اور مالی آسودگی کے ساتھ اولا د کی خوشیاں بھی حاصل ہیں اور عائلی زندگی کے مقاصد کا حصول ہو رہا ہے تو پھر ایک وقت میں ایک بیوی بھی کافی ہے۔

حضرت سیدہ خدیجہؓ کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ پچیس سالہ رفاقت سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ عائلی زندگی میں بیوی کی صالحیت ہی سے اس کی شوہر کے ساتھ ہمدردی، غم خواری، محبت و وفا اور شفقت و ایثار جیسے پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ آج نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی کو نبی کریم ﷺ اور حضرت سید ہ خدیجہؓ کی عائلی زندگی کا لا زمی مطالعہ کرایا جائے۔اس سے نہ صرف نسبتِ رسولﷺ کا استحکام حاصل ہو گا بلکہ ایک خوبصورت اور پر سکو ن عائلی زندگی کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں