106

صحافت کو مقدس ہی رہنے دیں /ظہیر احمد چوہدری

آج سے بیس پچیس سال پہلے کا پاکستان دیکھا جائے تو میڈیا بہت کمزور او ر نہ ہونے کے برابر تھا۔پاکستان کی سیاسیات ، معاشیات اور مذہبی صورتحال سے لوگ نابلد تھے ۔پی ٹی وی کا جانبدار خبرنامہ

دیکھ کر ہی ناظرین ملکی خوشحالی پہ مطمئن ہو جاتے تھے ۔ قتل ، چوری ، ڈکیتی اور تشدد کے واقعات کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا ۔دور دراز علاقوں میں پہنچائیت کے فیصلوں ، عورتوں کو ونی کرنے ، تیزاب پھینکنے جیسے واقعات منظر عام پہ نہیں آتے تھے ۔نہ کوئی ٹاک شو ہو تا تھا اور نہ ہی پرنٹ میڈیا میں کالم ۔اخبارات میں سب سے زیادہ دلکش صفحہ فلمی نیوز اور پوسٹر گردانا جاتا تھا۔لیکن آج کے دور میں دیکھا جائے تو ہر شخص سیاسی ، مذہبی ، اور سماجی صورتحال کے بارے میں نہ صرف ادراک رکھتا ہے بلکہ اپنا حصہ ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔بلاشبہ عوام الناس کو یہ شعور میڈیا اور مقامی صحافی حضرات نے دیا ہے ۔ہمارے ارد گرد جب بھی کوئی حادثہ یا اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو صحافی حضرات نہ صرف اس کی براہ راست کوریج کر تے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنی جان پہ کھیل کر عوام کو اصل صورتحال سے آگا کرتے ہیں ۔رات ہو یا دن ، بارش ہو یا دھوپ صحافیوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی ، ان کا کام صرف عوام الناس کوحقا ئق سے آگا ہ کرنا ہوتا ہے ۔قائداعظم ؒ صحافی حضرات سے محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صحافت ایک عظیم قوت ہے یہ فائدہ بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی ، اس کو دیانتداری سے چلانا چاہیے تاکہ رائے عامہ کی فلاح و بہبود کا سبب بن سکے ۔قیام پاکستان میں بھی صحافیوں کی نمایاں کاوش ہے ، ان میں سرسید احمد خان، ظفر علی خان جیسے نامور صحافیوں نے اخبارات کے اداریوں میں سوئی ہوئی قوم کوبیدار کیا اور ان کے اذہان کو جھنجھوڑا ۔صحافت کا تعلق چونکہ براہ راست عام آدمی سے ہوتا ہے اور قارئین میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ ہو سکتے ہیں ، اس لیے ہر صحافی کو چاہیے کہ وہ سیاست، مذہب اور تفرقہ بازی سے دور اور غیر جانبدار رہ کر اپنا موقف پیش کرے ۔یہ صحافت ہی ہے جس نے وڈیروں ، جاگیرداروں کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا اور موقع پر جا کر متاثرہ خاندانوں کے احوال قلمبند کیے ۔اور متاثرہ خاندانوں کی آواز ایوان بالا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔میڈیا اور صحافت کا نیک اور جائز استعمال ہی غریب اور پسے ہوئے عوام کی آواز بن سکتا ہے ۔بات جب صحافت میں حصہ ڈالنے کی ہو تو چوہدری عبدالخطیب صاحب کا نام نہ لینا خیانت ہوگی ۔چوہدری صاحب پنڈی پوسٹ کے نام سے اخبار چلا رہے ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں اتحاد بین المسلمین کا داعی اور غیر سیاسی، غیرجانبدار اخبار ہے ۔بلا شبہ اخبارایک مہنگا دھندا ہے جس میں اشتہارات آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں ، چوہدری صاحب صحافت کوپیشہ نہیں بلکہ ایک مشن ،شوق اور مقدس مقصد سمجھ کرکرتے ہیں ۔آپ بہت ہی متجسس ذہن رکھتے ہیں اور ہمیشہ نت نئے موضوع ڈھونڈ کر اسے تخلیقی انداز میں قارئین تک پہنچانے کی کوشش کر تے ہیں ۔ اگر کو ئی ڈرائیور غلط ڈرائیونگ کرے یا درزی سلائی ٹھیک طرح سے نہ کرے تو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ ’’بے استادا ‘‘ ہے ۔بلاشبہ ایک تجر بہ کار استاد کے بغیر آپ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو منظر عام پہ نہیں لا سکتے ۔صحافت میں چیف ایڈیٹر استاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس کے ہاتھ میں ایسی چھلنی اورڈی ٹیکٹر ہوتا ہے جو جونئیرز کی غلطیوں ، گالیوں کو صحافت کے پیمانے پہ پرکھتا اور چھانتا ہے اور پھرپرنٹ میڈیا کے حوالے کرتا ہے ۔ اس زمرے میں چوہدری صاحب اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نہ صرف نبھا رہے ہیں بلکہ حق ادا کررہے ہیں ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک صحابیؓ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کی محفل میں بیٹھتے ہیں تو ہم میں سے ہر شخص کو محسوس ہو تا جیسے رسول اللہ ﷺ کی ساری توجہ مجھ پر ہی مرکوز ہے اور آپ ﷺ سارے ہجوم میں مجھ ہی کو زیادہ چاہتے ہیں ۔بلاشبہ چوہدی صاحب ہر نئے، کم پڑھے لکھے اور پسماندہ لکھاری کو جو ابھی تک نرسری میں پنپ رہا ہوتا ہے اس کو نہ صرف وارم ویلکم کرتے ہیں بلکہ اپنی شفقت سے ایسی آبیاری کرتے ہیں کہ اس کو تناور اور سایہ دار درخت بننے میں دیر نہیں لگتی ۔چوہدری صاحب اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ صحافت حقائق پہ کی جاتی ہے افواہوں پہ نہیں ۔اول فول تجزیہ شائع نہیں کرتے ، صحافت کے آفاقی اصولوں سے خوب واقف ہیں ، ناقابل اشاعت کو قابل اشاعت نہیں بناتے۔چوہدری عبدالخطیب صاحب کو معلوم ہے کہ صحافت گالیا ں دینے ، بدتمیزی کرنے اور چمچہ گیری کا نام نہیں اور نہ ہی صحافت کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے اور تعلقات کی بناء پر تعریفیں کرنے کا نام ہے ۔ پچھلے شمارے میں میرے ’’اے مہاراج دے ناں دی ویل ‘‘ پہ ایک محترم بھائی نے اعتراضاً کالم لکھا تو بہت دکھ ہوا ،دیانتداری سے دیکھا جائے تو میرے ویل ویل والے کالم میں کسی قسم کی کوئی گالی نہیں اور نہ ہی میرا مشن عوام الناس کی تذلیل ہے ا ور اگر تھی تو گالی اور مبالغہ جیسے الفاظ چیف ایڈیٹر نے کیسے نظر انداز کر دیئے ۔میں زیادہ وضاحت نہیں دوں گا صرف اتنا کہوں گا کہ بحیثیت کالم نگار یہ صرف میری رائے ہے جس سے قاری کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔قارئین میرے گذشتہ تمام کالم نکال لیں اس میں ایک چیز مشترک ہوگی کہ میں نے معاشرے کی خرابیوں کو فوکس کیا ہے ۔محترم راجہ صاحب نے مخصوص طبقے کو ڈیفنڈ اور ویل ویل کو جسٹی فائی کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ان کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔جہاں تک ویل ویل کا عربی مطلب کا تعلق ہے ۔آپ گوگل عربی میں ویل ٹائپ کر کے سرچ کریں آپ کو ویل کے بیسیوں مطلب یہی ملیں گے کہ تم پر لعنت ہو ۔پھٹکار ہو ۔اردو چونکہ فارسی اور عربی کا مکسچر ہے اور ردو میں زنا ، لباس ، عورت ، ویل ، قلم ، تاریخ ، اشارہ ، تحقیق اس طرح کے سینکڑوں الفاظ عربی اردو میں مشترک ہیں ۔دوسری بات موصوف نے نوحہ کے بارے میں فرمائی ، نوحہ کرنا ایک مخصوص فرقہ کے عقائد میں تو جائز ہو سکتا ہے لیکن اسلام میں اس کی سخت ممانعت ہے اور امت مسلمہ کبھی اس پہ متفق نہیں ہوئی ۔حدیث شریف ہے کہ ’’ جو منہ پہ تمانچہ مارے ،گریبان پھاڑے ، اور جاہلیت کا پکارنا، واویلا کرنا، نوحہ کرے ، چلائے ، ہائے کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘صیحح بخاری جلد اول ، ص ۴۳۹ ، حدیث نمبر ۱۲۹۷ ۔اگرمیرے ویل ویل کالم سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں ۔کالم کا مقصد نیک تھا اور صرف انفارمیشن پہنچانا تھا۔یہ سچ بھی ہے اور ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ سبھی انسان سیدنا آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کئے گئے ۔اللہ کے ہاں قابل عزت وہ ہے جس کا تقوی زیادہ ہے ۔ تنقید ان کی قومیت،خاندان یا پیشہ پر نہیں بلکہ اس آمدن پر ہے جو باطل اور غیر حلال ذرائع سے اکٹھی کی جاتی ہے۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں