شیراز اختر مغل ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ ان کا فنونِ لطیفہ کے تقریبا” ہر شعبے سے تعلق ہے۔ ہر محفل کی رونق ان کے دم سے ہوتی ہے۔ گوجر خان میں ان کی ادبی بیٹھک کافی مشہور ہے۔ ان کے پاس کبھی ڈرامہ نگار کبھی گلوکار کبھی نعت خواں کبھی شاعر اور کبھی اداکار بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے۔ فنونِ لطیفہ میں سے ان کے دو شعبے سب سے نمایاں ہیں۔
خطہ ء پوٹھوہار کے علاوہ بھی لوگ انھیں گلوکاری اور شاعری کے حوالے سے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ یہاں میں ان کی شاعری بالخصوص پوٹھوہاری نظم کو زیرِ بحث لاؤں گا۔ ان کا تعلق خطہ ء پوٹھوہار کے دل گوجر خان سے ہے۔ اس خطے کی زبان، ثقافت و تہذیب سے بہ خوبی واقف ہیں۔ پوٹھوہاری زبان میں یوں تو نظم کہنے والے کافی شعرا ہیں، ان کی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں لیکن جو ان کی آزادنظم کا منفرد اسلوب، جداگانہ فضا اور روایت سے جڑت ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے۔ جب نظم معیاری ہو اور پیش کرنے کا ڈھنگ اچھوتا ہو تو سونے پہ سہاگہ سمجھیے۔اس پر بھر پور داد بنتی ہے۔ یہ ملکہ خال ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔
پوٹھوہاری زبان کو سمجھنے اور لکھنے والوں کے علاوہ بھی دوسری زبانوں کے شعرا ان کی نظموں اور طرز انداز کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ بھر پور داد بھی دیتے ہیں۔معروف افسانہ نگار، شاعر و ادیب جناب ذہین احمد ان کے نظم کے بارے میں کہتے ہیں: ”ان کی ہر نظّم پورا افسانہ ہوتی ہے”۔اردو نظم میں میرا جی،ن م راشد،مجید امجد کا جو مقام ہے، شیراز اختر مغل بھی اسی راستے کے مسافر ہیں اور اس صنف میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ ان کی یہ شاہکار نظم سدھراں دیکھیے جس کا شمار پوٹھوہاری کی چند مشہور اور شاہکار نظموں میں ہوتا ہے:
(سدھراں)
کہہ ہویا اے؟
کہہ کرنے او؟
مھاڑی مجبوری تے سمجھو
حالیں تے میں بہوں کم کرنے
تہھیاں کی میں ڈولی باہنڑا ں
پتراں کی وی سہرا لانڑاں
اماں کی میں حج کرانڑاں
رہنڑیں نی کوئی ٹھار بنانڑیں
ایڈی کہڑی کاہلی پئی گی؟
یارو!لوکاں کی سمجھاؤ
مھاڑے اپروں پڑیاں چاؤ
ان کی اس شاہکار نظم کے علاوہ باقی نظمیں بھی ثقافت اور ہماری روایت کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہماری تہذیب کی مکمل نمائندگی کرتی ہیں۔
اخلاقیات، انسانیت، ہمدردی، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض، احساسِ ذمہ داری، سانجھے دکھ درد، پھر محبت کے دنوں کی کیفیات، وعدے کی پاسداری وغیرہ وغیرہ ہماری قدیم روایات ہیں، ان کی نظمیں ان روایات کا مکمل احساس دلاتی ہیں۔ یہی خوبصورت روایات ہماری پہچان ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج نفسانفسی کا دور ہے۔ ہر شخص خود غرضی کا لباس پہنے ہوئے ہے،
جو کہ ہماری تباہی و بربادی کا باعث ہے۔شیراز اختر مغل نے ماضی کی روشن اقدار کو نظموں کا خاص موضوع بنایا ہے۔ جو روایات ختم ہو گئی ہیں، جو ہمارے معاشرے کی خوبصورتی کی علامت تھیں، ان کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ یہ نظم دیکھیے جوکہ زندگی کی تلخ حقیقت کو پیش کر رہی ہے۔زندگی پھولوں نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔ انسان کا رونا مقدر میں لکھا ہے۔ وہ روتا ہوا آتا ہے اور روتا ہوا ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ یہ نظم اسی منظر کی ترجمانی کر رہی ہے:
(نویاں پھوٹاں)
پھلاں تے بندیاں نی یھاتی
ایویں بانڑیں
ہکے جئی اے
پھل جمنڑیں تے
کھڑ کھڑ ہسنے
میں جمیا ساں
میکی دائی
تپھے مار روایا سا
ان کی یہ مشہور نظمیں جن میں وڈیائی،پینڈا،کچاں نے ساک،پچھانڑ،کوڑا سچ،سادہ روح، چہھلا، بٹے،کھرکھلا،چوگ،باوا بوٹا،نویاں پھوٹاں،شامل ہیں جوکہ قاری کو حصار میں لے لیتی ہیں۔ ان نظموں میں ان کا گہرا مشاہدہ اور ماضی کے روشن باب کی جھلک نظر آتی ہے۔
جب ہم ان کی کتاب کنڑیاں کا مزید مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں دو نظمیں ہمارے معاشرے کی جہالت پر ماتم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنا موازنہ کریں تو ہم ابھی بھی پندرہ سو سال پہلے کے کلچر اور روایات کے پیروکار ہیں۔ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، اس کا عملی نمونہ پیش نہیں کر رہے۔ ”آدم نیاں تہھیاں،تہھی رانڑیں ” اس دور کا المیہ ہیں۔ عورت آج بھی بے بس ہے اور اپنی محرومی پر ماتم کر رہی ہے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
احساس اور در رکھنے والے دل کو ماضی کی یادیں جلاتی رہتی ہیں۔ زمانے کے ساتھ اپنے دکھ بھی جسم سے لپٹ کر خون چوستے رہتے ہیں۔ غمِ جاناں کے بغیر بھی زندگی ادھوری ہوتی ہے۔ ان کا اس سلسلے میں بھی مشاہدہ اور تجربہ کمال کا ہے۔ انھوں نے غمِ دوراں کے ساتھ غمِ جاناں کو بھی ایسے اسلوب کے ساتھ نظموں میں پرویا ہے کہ قاری عش عش کرتا ہے۔
علاوہ ازیں اپنی رہتل کے ساتھ پوٹھوہار کے قدیم کھیلوں اور پوٹھوہاری زبان کا اتنا بہترین استعمال کیا ہے کہ یہی نظمیں ادب میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ شاعر کی مشقِ سخن اور اسلوب پر داد دینا پڑتی ہے۔ ان کی نظمیں چھپنڑ چھوت،پینڈا،کچاں نیساک،بے غرضی ناں پیار، غم ِ جا نا ں کا بھر پور اظہار کر رہی ہیں:
ان کی نظموں میں روایت سے جڑت تو ہے ہی لیکن مزاحمتی انداز بھی بھر پور ہے
اور کئی نظموں میں سخت لائنیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں اور یہ معاشرے سے کھل کر بغاوت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اصلاحی پہلو کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ غلط رسومات اور قوم پرستی کو جرم تصور کرتے ہیں:
(کندھ)
اس تہھرتی نے کمی جمی
راٹھاں تے سرداراں نیاں
پگاں نی
مایا ہونڑیں وے
انھاں نے سر ننگے رہنڑیں
کیوں جے!
ایہہ آدم نے پہھائی
خادم نے تہھیاں پتر وے
شیراز اختر مغل کی ایک ایک نظم کوٹ کرنے کا جی کرتا ہے۔ ہر ایک نظم الگ پلاٹ، الگ کیفیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے کسی شہر میں مشاعرہ ہو، پوٹھوہاری نظموں کی لازمی فرمائش کی جاتی ہے۔ شعرا ء کے ساتھ سامع بھی بھر پور داد دیتے ہیں۔میرے خیال میں ان کا اصل میدان پوٹھوہاری نظم ہی ہے
اور ان کو اسی پر مزید کام کرنا چاہیے۔ پوٹھوہاری نظم ہی ان کو ادبی تاریخ اور ادبی دنیا میں زندہ رکھے گی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ نظمیں پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان کو زندہ رکھیں گی۔ کسی خطے اور اس کی زبان کو ایسا عمدہ نظم گو شاعر میسر ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔