سابق صدر جنرل پرویز مشرف بتلایا کرتے تھے وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ سبھی لوگ مجھے جنرل مشرف کے نام سے پکارتے اور لکھتے رہتے ہیں در حقیقت میرے والد گرامی قدر کا نام مشرف ہے اور میرا اولین نام تو پرویز ہے پھر والد صاحب کے نام و نسبت کی بدولت آگے مشرف لگا ،
میرا مکمل نام ہے پرویز مشرف ، باقی آپ مجھے جنرل نہ بھی کہیں تو کوئی بات نہیں لیکن کم از کم پرویز تو بول دیا کریں نا ۔ آج اسی حوالے سے میں بھی یہ بتلانا اور وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں بالخصوص نئے نئے جاننے اور پڑھنے والوں کو یا پھر کم جاننے والوں کو جو اکثر فون کر کے پوچھتے ہیں کہ آپ راجہ رشید صاحب ہی بات کر رہے ہیں نا۔؟
یا کہتے ہیں کہ راجہ رشید صاحب آپ خیریت سے ہیں۔؟ میں کس کس کو بتلاؤں کہ میرے بابا راجہ محمد رشید صاحب کو آج سے چار سال قبل قبر میں اتار دیا گیا تھا ۔ 11 مارچ 2020ء کو وہ اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ، میں تو بس شاھد ہوں ، کالم ”شہادت“ لکھنے والا شاھد جس کا تخلص بھی شاھد ہے اور نام بھی شاھد ہے ، جسے اپنے برائے خاص و عام و تمام شاھد ہی بولتے ہیں ۔
میرے شفیق و مہربان والد گرامی راجہ محمد رشید بھی مجھے بڑے ہی لاڈ پیار سے کہا کرتے تھے ”شہد“ ۔ ہم پٹھواری بولنے والے جب شاھد کہتے ہیں لے و لہجہ ہی ایسا ہے کہ ادائیگی سے شاھد کبھی شاھد نہیں رہتا بلکہ بدل کر ”شہد“ ہی بن جاتا ہے ۔
والد صاحب کے انتقال سے کچھ ماہ قبل میں اپنے گاؤں درکالی شیر شاھی گیا تو بابا کمبل میں منہ کیے لیٹے ہوئے تھے میں نے منہ پر سے کمبل ہٹایا اور مذاق کرتے ہوئے کہا کہ میں راولپنڈی سے آیا ہوں ۔ میں راجہ رشید صاحب کا بیٹا ہوں ۔ تو پھر آگے سے ہنس کر فرمانے لگے کہ اچھا جی ، اچھا جی راجہ رشید کا وہ بیٹا آیا ہے جس کا نام شہد ہے میں نے کہا کہ صرف ”شہد“ نہیں ہے بلکہ شہد رشید ہے ۔
میرے بارے میں اکثر یہ کہا اور لکھا گیا ہے کہ میں شاعری میں صحافت اور صحافت میں شاعری کرتا ہوں لہٰذا کلامِ شاعر بقلمٍ شاعر ملاحظہ فرمائیے :
پھانسی چڑھ کر شیر بھٹو حق کا نعرہ بول گیا
فکر وہ اپنی آفاقی سچ میزان پہ تول گیا
آج بھی سارے عالم میں ڈنکے ترے ہی بجتے ہیں
فخر ایشیا قائدٍ عوام القاب تجھی کو سجتے ہیں
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بی بی رانی کے بارے میں نے کہا تھا کہ :
کون کہتا ہے کہ صرف سیاستٍ اقتدار کی بات کرتی تھی
وہ بُوۓ قلندر تھی خلقٍ خدا سے پیار کی بات کرتی تھی
لوگوں کو مبارک ہوں تخت و تاج و حکومت کی باتیں
وہ شہید کی بیٹی پھانسی کی اور دار کی بات کرتی تھی
محترم قارٸین ، شاہد کی شاعری تو ملاحظہ فرما لی ہے آپ نے اور اب ملاحظہ فرمائیے شاہدہ کی شاعری ، جی ہاں عہد موجود کی معروف اور مایہ ناز شاعرہ محترمہ شاہدہ عرفی جی الفاظ سے مصوری کرتی ہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ ”سوہنے سجرے“ حرف موتیوں کو ایک دلکش و ملائم مالا کی مانند ایک سُچی کُچی لڑی میں پرونے کا ہُنر شاہدہ سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہوگا ۔
اگر کسی بہن بی بی نے یہ علم و فن جاننا ہے یا پھر شاعری کا اصلی اسلوب و سلیقہ سیکھنا ہے تو میرا یہ نیک مشورہ مفت ہے کہ پلیز آپ شاھدہ عُرفی جی سے ہی سیکھیں ۔ محترمہ شاہدہ عرفی کے نعتیہ کلام سے چند اشعار حاضر خدمت ہیں :
یوں جگمگائے عشق رسول میرے سینے میں
جس طرح پھیلا ہے ہر سو نور مدینے میں
عقیدت کے سبھی پھول پرو دوں لفظوں میں
مدحت ہو جائے جو بیاں ان کی قرینے میں
اس طرح پھوٹے اس دل میں حُب محمد
جس طرح پھوٹتی ہے سحر رات کے سینے میں
گر ہو جائے نصیب ان کی شفاعت عُرفی !
تو آ جائے سرور پھر میرے اس جینے میں
عصرٍ حاضر کی منفرد اور نامور شاعرہ محترمہ شاہدہ عرفی جی کو ادب و شاعری سے دلی لگاؤ ہے اور نہ صرف شاعری سے بلکہ نثر نگاری بھی ان کے ادبی ذوق کا پیارا اور نیارا رنگ رہا ہے ۔ انہیں اردو ادب و زبان سے بے حد محبت تھی اس لیے ایم اے اردو کیا بلکہ انہوں نے اپنے ضلع چکوال سے سی ٹی اور بی ایڈ بھی کیا ہے ۔ میرے بڑے ہی پرانے ”سنگی“ ماجد وفا عابدی اور طالب بخاری سے شاعری میں اصلاح لیتی رہی ہیں ۔ باعنوان ”محبت کیا ہے۔؟“ فرماتی ہیں کہ:
محبت ہی درد محبت دوا ہے
محبت ہے جرم محبت سزا ہے
محبت عبادت محبت گناہ ہے
محبت پاکیزگی محبت حیا ہے
محبت وفا ہے محبت بقا ہے
محبت ہی کو امر ہونا ملا ہے
محترمہ شاھدہ عُرفی کی اردو ادب و زبان کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے گراں قدر خدمات ہیں ۔ محترمہ ممبر آف قومی نفاذ اردو کونسل ہیں ۔ اس کے علاوہ ممبر آف اکادمی ادبیات ، ممبر آف کل پاکستان خواتین محفل نعت اور ممبر آف بزمٍ احبابٍ قلم ہیں ۔ شاہدہ عرفی جی فرماتی ہیں کہ :
اے زندگی تری مانگ پھولوں سے بھر دیتی
میں تجھے خود سے بھی آشنا کر دیتی
کو بہ کو میں تیرے ہم سفر ہوتی
گر زمانے کے گرداب سے مجھے فرصت ہوتی
جس طرح ملے ہوں دو بچھڑے برسوں بعد
چھو لیتی ترے قدم ترے ماتھے پہ بوسہ دیتی