162

شام میں داعش کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں /طاہر یاسین طاہر

جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جنگوں کی خوراک انسانی لہو ہی رہا۔انسان اپنے جیسے انسانوں کو کیوں قتل کرتا ہے؟فکری مغالطے انسانی رویوں میں اچھی بری تبدیلیاں لاتے ہیں۔ انسان جب مولوی کے ذہن سے سوچتا ہے تو اسے اپنے سوا ہر کوئی مرتد،بے دین، بدعتی،کافر اور پتا نہیں کیا کیا نظر آتا ہے۔حالانکہ سادہ بات یہی ہے کہ ہر انسان سے صرف اسی کے اعمال کے بارے پوچھا جائے گا۔کیا جنگیں لڑنے والوں میں معتدل مزاج جنگجو بھی ہوا کرتے ہیں؟ہر جنگجو کا اولین مقصد اپنے حریف کا گلا کاٹنا ہوتا ہے۔اگر وہ یہ نہ کر سکے تو پھر اسے اپنے گلے کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ہلاکوں خان کو جدید نسل شاید کم کم جانتی ہے۔کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا نے سیلفیاں متعارف کروا کر انسان کا رشتہ تاریخ کے باب سے جدا کر دیا ہے، اگرچہ پوری طرح نہیں۔لیکن آج کا نوجوان اسلامی و انسانی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کو شعوری طور پر تیار ہی نہیں۔خیال رہے کہ انسانی اور اسلامی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں۔اس امر میں کلام نہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک کمرے میں بند کر کے ایک دوسرے سے شناسا کر دیا۔انٹرنیٹ کے مثبت فوائد گنوائے جائیں تو اس کے لیے دفتر درکار ہے۔ ہمارا المیہ مگر وہی کہ ہم نفسیاتی ہیجان کے مارے ماضی کے اوراق سے مسلمانوں کی فتح کے حاشیے تلاش کرتے ہیں یا پھر غیر اخلاقی ویب سائٹس سے اپنے کمپیوٹر کی سکرین کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔دلیل اس کی یہ کہ پی ٹی اے نے یو ٹیوب سمیت ہر وہ ویب سائٹ پاکستان میں بند کی ہوئی ہے جو بے راہ روی کا راستہ دکھاتی ہے۔ یو ٹیوب کی بندش کی اگرچہ وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔کالم کا مقصد جدید و قدیم تاریخ یا جدید و قدیم علوم کا موازنہ ہر گز نہیں۔بلکہ مقصود یہی ہے کہ ہم میں 80فی صد سے زائدپاکستانی بالخصوص دنیا میں لمحہ بہ لمحہ ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہیں،اور ان کی یہ بے خبری شعوری ہے۔ہمارا میڈیا بھی عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کی خبروں اور تجزیوں کو عالمی میڈیا سے مستعار لے کر اپنے صفحات سیاہ کر رہا ہے۔امریکہ میں آئے روز نسلی فسادات ہوتے ہیں۔ہمارے اردو اخبارات بالخصوص ایسی خبروں کو اندر کے کسی صفحے پر ایک کالمی جگہ دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں اگر قصور ایسا واقعہ ہو جائے تو نہ صرف ہمارا میڈیا جاگ جاتا ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی میڈیا بھی ایسے واقعات کو خاص زاویہ سے جگہ دیتے ہیں۔بے شک پروپیگنڈا ایک ہتھیار ہے جو مغربی میڈیا بڑی ہنر مندی سے استعمال کر رہا ہے۔ مگر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جب ہم پروپیگنڈا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں قصور ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے یا ہمارے ہاں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود نہیں ہیں۔بے شک یہ سب ہے،پروپیگنڈا مگر ایک خاص زاویہ سے کیا جاتا ہے۔ہماری بے خبری کا عالم تو یہ ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ اب تک کتنے شامی،عراقی،پاکستانی اور افغانی پناہ گزین یورپ بالخصوص جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ قندوز میں لڑنے والے طالبان اشرف غنی سے کیا چاہتے ہیں اور اشرف غنی بھارت سے مل کر پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ترکی جو پاکستان میں میٹرو بسیں چلانے کے لیے بہت متحرک ہے اس سے کہیں زیادہ متحرک وہ داعش کی تخلیق او رازاں بعد اس میں شامل ہونے والے یورپین جنگجوؤں کی مدد کرنے میں ہے۔عمان اور قطر،بحرین و کویت مشرقِ وسطی میں ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں ؟ہم نے اس پر بھی کبھی اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیں تو اس بات کی بھی خبر نہیں کہ سعودی عرب اور یمن کا تنازع ایک علاقائی سیاسی تنازع ہے نہ کہ مذہبی جنگ۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسرائیل نے اب تک کتنے فلسطینیوں کو بے گھر کیا؟ کتنوں کو شہید کیا؟ اور سعودی عرب سمیت عربوں نیاسرائیل کے دستِ ستم کو کب اور کتنی بار مروڑا؟ ہم مگر مولوی کے دماغ سے سوچتے ہیں اور اسی کے مفاد پر قربان ہوتے ہیں۔القاعدہ بناکر جدید دہشت گردی کی ایسی بنیاد رکھی گئی کہ رہے نام اللہ کا۔القاعدہ نے باقاعدہ طالبان،النصرہ فرنٹ،سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی،الشباب،بوکوحرام اور سب سے خطرناک داعش کو جنم دیا۔ داعش کے مظالم اتنے بھیانک اور درد آور ہیں کہ قلم بھی لکھنے سے عاجز آجاتا ہے۔ہر ظالم کا انجام مگر عبرت ناک ہی ہوا کرتا ہے۔اس بات میں کلام نہیں کہ داعش نے عراق و شام کے کچھ حصے پر قبضہ جما کر اپنی نام نہادخلافت کا اعلان بھی کر دیا ،اپنا سکہ جمانے کے لیے اپنا سکہ جاری کیا۔اس کے حق میں جہاد النکاح کا شرمناک فتوی بھی آیا اور جب داعش نے فتوی گروں کے طرف ایک دو گولے داغے تو داعش کے خلاف فتوی بھی آگیا۔یہ فکری مغالطے انسانی رویوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔القصہ کہ عالمی سامراجی طاقتیں مشرقِ وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔اس میں انھیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے جبکہ لیبیا کے بھی حصے بخرے کیے جا رہے ہیں۔ ترکی اور آلِ سعود اس کھیل کیبڑے کھلاڑیوں میں سے ہیں۔تیونس سے اٹھنے والی لہر کو عالمی سامرجی طاقتوں نے بڑی مہارت سے کے ساتھ اپنے حق میں تبدیل کر لیا۔2011سے شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لیے عرب بہار کے نعرے کوبلند آہنگ کر کے امریکہ کو دعوت دی گئی کہ شام پر حملہ کرو اس کا سار اخرچہ ہم اٹھائیں گے، امریکہ بہادر تیار بھی ہو گیا تھا مگر روس آڑے آگیا۔بے شک داعش نے اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا،حتی کہ ترکی جو داعش کی تخلیق اور اس کے جنگجوؤں کو پناہ دینے میں پیش پیش تھا وہ بھی نہ صرف داعش مخالف بیان دینے لگا بلکہ داعش کی طرف سے ترکی کے اندر خود کش حملہ کے بعد ترکی نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے مگر بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ ترکی داعش کی آڑ میں کردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا خواہش مند ہے۔امریکہ نے بھی ایک اتحاد تشکیل دیا ہو اہے جو عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرتا ہے۔ عراقی حکومت کو مگر شکایت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کارروائیاں دکھلاوے کے لیے کرتے ہیں اگر واقعی امریکہ اور اس کے اتحادی داعش کے خلاف کارروائی کریں تو داعش کو عراق سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ داعش عراق سے بے دخل ہو کر کہاں جائے گی؟ روس کی پارلیمنٹ نے مگر شام کے صدر بشارالاسد کی درخواست کو منظور کر لیا ہے اور روسی پارلیمنٹ نے اپنے صدر کو ملک سے باہر فوجیں بھیجنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بشارالاسد کا سفارتی اتحادی اب کھل کر اس کا عسکری اتحادی بھی بن چکا ہے ،روس کے جنگی طیاروں نے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباریشروع کر دی ہے۔روس کی طرف سے یہ کارروائی اس امر کا اشارہ ہے کہ شام میں داعش کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔جہاں القاعدہ،النصرہ اور داعش کے تکفیری دہشت گرد ایک بھیانک شکست کھا کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔داعش کا خطے میں کم و بیش تیس سے چالیس سال تک کسی نہ کسی شکل میں وجود،موجود رہے گا مگر اس کی قوت اب ختم کر دی جائے کی۔متبادل کیا سامنے لایا جائے گا؟نئے دہشت گرد جنھیں معتدل دہشت گرد کہا جائے گا۔ کام ان کا بھی وہی ہوگا جو سارے دہشت گردوں کا ہوا کرتا ہے مگر ان کا نام اب کی بار تبدیل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ عالمی سامراج دنیا کے نقشے پر ایک نئے مشرقِ وسطی کو دیکھنا چاہتا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں