257

سماجی برائیوں کے خاتمے کیلئے پولیس کا مثبت کردار

مبین مرزا/کچھ سماجی اور اخلاقی برائیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں،اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ اور یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے موجود ہیں،لیکن فی زمانہ جدید سائنسی ترقی کی بدولت ان کا ارتکاب کرنے والے اکثر نہ صرف کیمرے کی زد میں آ جاتے ہیں بالکل سوشل میڈیا کی بدولت ان کا گناہ چند ہی منٹوں میں پوری دنیا کے سامنے وڈیو کی شکل میںعےاں ہو جاتا ہے۔۔ اور ہم ایک اسلامی ملک میں رہنے والے شاک کے حالت میں آ جاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے بعض لوگ اخلاقی پستی کی کس انتہا تک جا پہنچے ہیں©©؟ کبھی کوئی جوان بوڑھے والدین کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ھے تو کبھی کوئی خاوند اپنی بیوی پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہاہے،کبھی کوئی ہوس کا پجاری کسی معصوم بچے یا بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے تو کبھی کوئی آوارہ مزاج جوان نا جائز اسلحہ کی نہ صرف سرعام نمائش کرتا نظر بلکہ تابڑ توڑ فائرنگ کر کے علاقہ میں خوف و حراس پھیلاتا نظر آتا ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان لڑکے کی اپنی بوڑھی ماں پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ کی وڈیو وائرل ہوئی تو پورے معاشرے کے والدین کانپ کر رہ گئے۔ اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں اتنی اخلاقی پستی کہاں سے در آئی۔کیا استاد کا کام صرف درسی کتاب کے مشقی سوالوں کے جواب رٹا دینا رہ گیا؟؟ کتابوں میں لکھے اخلاقی اسباق کی روح سے روشناس کرانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ مدرسوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ھر مسلک کا مدرسہ اپنی نظریاتی فوج میں اضافہ کے درپے ہے اور ڈھڑا دھڑاخلاقی اوصاف سے عاری ایسے مولویوں کی فوج تیار کی جارہی ہے جن کا کام نئی نسل کی اخلاقی تربیت نہیںبلکہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی عظیم مثالیں قائم کرنے والی عظیم ہستیوں کے اخلاق کے نمونے نئی نسل تک منتقل کرنے کے بجائے۔۔۔ اللہ کو مشورے دینے پر اور ان کی جنت میں درجہ بندی کرنے کے موضوعات کو لے کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر مصروف ہیں۔۔۔خود والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دینے کی بجائے ان کو اپنی پسند کے مدرسے یا سکول میں داخل کرا دینے کے بعد خود کو ان کی تربیت سے بری الزمہ قرار دئیے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں معصوم بچے مختلف ٹی وی چینل کے بےہودہ ڈراموں،کمرشلز، غیرملکی فلمز، یو ٹیوب پر مخرب اخلاق بلیو فلموں کے زیر اثر تربیت پا رہے ہیں۔ ایسے میں میں نے اپنی پولیس کا وہ اچھا روپ اور رویہ دیکھا ہے جس سے آپ کو آگاہ کرنا اور اس پر بطور ایک استاد اور اےک لکھاری اُن کو خراج تحسین پیش کرنا نہایت ضروری خیال کرتا ہوں۔ آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پولیس کے چند افسران اور اہلکاران کی جانب سے اصلاح معاشرہ کا یہ پہلو واقعی خراج تحسین کے لائق ہے۔
وہ لائق تحسین رویہ کیا ہے؟؟؟
جب کسی نے بھی کسی اخلاقی پستی کے مرتکب فرد کی وڈیو کو سوشل میڈیا پر ایک سوشل ایشو بنا کر پیش کیا ہے،اس پرہماری دردمند پولیس نے اس وڈیو کو ایک حساس ایشو سمجھتے ہوئے نہ صرف ازخود نوٹس لیتے ہوئے بغیر کسی مدعی کی درخواست کے اس متعلقہ ملزم کو گرفتار کیا بلکہ سب سے قابل تعریف کام یہ کیا کہ اس اخلاقی پستی کے مجرم کے گھناونے فعل کو قابل مذمت فعل بنا کر معاشرے کی مثبت تربیت کی یہ راہ نکالی کہ اس ملزم/مجرم کی نہ صرف اس جرم کے اقرار کی وڈیو بنائی بلکہ اس گناہ کرنے والے شخص کی اس گناہ پر شرمندگی،ندامت اور پشیمانی کو سامنے لائی بلکہ جس کے ساتھ زیادتی کی اس سے پورے میڈیا کے سامنے معافی کی اپیل بھی کروائی۔ بے شماراےسی اعترافی وڈےوز ےقےنا آپ کی نظر سے گذری ہو ں گی۔۔ویلڈن پاکستانی پولیس ویلڈن۔۔میں اپنے اہل قلم سے اس بات کی اپیل بھی کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے وہ لوگ جو اس معاشرے کی اصلاح میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی ہمت بندھائیں، ان کے اچھے کردار کو ہائی لائٹ کریں،ان کے حوصلوں کو اپنے اچھے الفاظ کے سہارے سے اور مضبوط کریں۔ ےقےنا ہم کسی اخلاقی طور پر بانجھ معاشرے کے بے حس افراد نہےں ہےں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں