columns 160

سلطنت عثمانیہ اور پاکستانی معیشت

پاکستانی وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ 2024-25بنایا یہ بات پڑھ کر سلطنت عثمانیہ کا اعلان محرم یاد آگیا کہ ہمارے ساتھ بھی وہی ہونے جارہاہے جو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا تھا سلطنت عثمانیہ اور ہمارے موجودہ حالات کی مماثلت بہت زیادہ ہے اور پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے سلطنت عثمانیہ کا فرمان محرم کیا تھا؟

یہ معاشی سرنڈر کی دستاویز تھی جس پر 1881ء میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے دستخط کئے تھے اور یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے سٹیٹ بنک پر سلطنت عثمانیہ کا کوئی کنٹرول نہیں رہا اور اب مالیاتی بند و بست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی ‘انہی کا عملہ آئے گا وہی پالیسیاں بنائیں گے وہی ٹیکس کا تعین کریں گے اور وہی ٹیکس وصول کریں گے۔

چنانچہ فرمان محرم کے تحت پور پی ممالک نے سلطنت عثمانیہ کی معیشت کا نظام سنبھال لیا۔ یہ اپنے لوگ لے کر آئے ان کی اپنی معاشی ٹیم تھی اور اپنے ماہرین تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی وزارت خزانہ اور سارا مالیاتی ڈھانچہ بے بس ہو گیا۔ یورپی اہلکاروں نے ریاست کے اندر ریاست بنائی بندر گاہوں سے لے کر بازاروں تک ہر طرف انہی کی پالیسیاں چل رہی تھیں۔

ایک متوازی معاشی بیورو کریسی کھڑی کر دی گئی اگر کوئی ترقیاتی کام بھی ہوتا تو انہی کی اجازت اور تعاون سے ہوتا انہوں نے ٹیکسوں کا انبار لگا کر رہی سہی مقامی معیشت کا جنازہ نکال دیا۔ ایک نئی معاشی پالیسی آئی اور پر اس شعبے میں باہر سے سستا مال مارکیٹ میں ڈال دیا گیا جس میں مقامی سطح پر کوئی پیداوار ہو رہی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی معیشت بر باد کر دی گئی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس یورپی بندوبست کے ملازمین کی تعداد سلطنت عثمانیہ کا وزارت خزانہ کے ملازمین کی تعداد سے زیادہ ہوگئی مقامی سطح پر بھی ہزاروں لوگ بھرتی کئے گئے جن کا کام صرف یہ تھا کہ نئے نئے ٹیکس وصولی کئے جائیں اور ٹیکس کی یہ رقم یورپ لے جائی جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ اسی دن ہو گیا تھا جب اس نے اعلان محرم جاری کیا تھا اس فرمان محرم سے پہلے کیا ہوا یہ بھی دیکھ لیجئے اور غورکیجئے کہ سلطنت عثمانیہ کے دربار شاہی اور اس سے جڑی اشرافیہ کے غیر معمولی اخراجات تھے چنانچہ بیورو کریسی کے اللے تللے پورے کرنے کے لئے قرض لیا جاتا رہا یعنی کہ وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہوتا رہاہے

قوم کے سر پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا عذاب ہے لیکن بالا دست اشرافیہ اور بیورو کریسی کے مزے ہیں چنانچہ قرض لے لے کر اور بے رحمی سے ضائع کر کے ایک وقت آیا کہ سلطنت عثمانیہ کا دیوالیہ نکل گیا قرض کا پھاڑ کھڑاتھا لیکن اس قرض سے سلطنت عثمانیہ میں ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے اتنا زر مبادلہ حاصل ہو یا تا کہ فرض کی ادائیگی ہی ہوتی رہتی وہی جو ہمارے ساتھ ہو رہاہے

چنانچہ 1875 ء میں فرمان محرم جاری کیا گیا اور دنیا کو بنا دیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کے پاس آپ کا قرض ادا کرنے کا کوئی بندوبست نہیں رہا وہ دیوالیہ ہو گئی ہے جب نوبت یہاں تک آن پہنچی تو جنہوں نے قرض دے رکھے تھے وہ اکٹھے ہو گئے کہ اب سلطنت عثمانیہ کی معاشی پالیسیاں ہم ترتیب دیں گے، اب اہم فیصلہ ہم کریں گے طے پایا کہ اب ٹیکس کب کہاں اور کتنا لگناہے اس کا فیصلہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلامت نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو قرار دے رکھا ہے

بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں اب یہ بات آئی ایم ایف طے کرتا ہے کہ بجٹ کیسا ہو گا اور حکومت اس حقیقت کا اعتراف کر چکی ہے کے ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کربجٹ بنایا ہے
اس کے چند ہی سال بعد 1881 ء میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے معاشی سریڈیو کی دستاویز پر دستخط کئے اور فرمانی محرم جاری کر دیاگیا فرمان محرم اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے سٹیٹ بنک پر سلطنت عثمانیہ کا کوئی کنٹرول نہیں رہا اب مالیاتی بندو بست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی

انہی کا عملہ آئے گا وہ ہی پالیسیاں بنائیں گے وہی ٹیکس کا تعین کریں گے اور وہی ٹیکس وصول کریں بالکل ایسے ہی جیسے ہم اپنے سٹیٹ بلک کو خودمختارکر کے اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اس پر ہمارا اس طرح سے کوئی کنٹرو ل نہیں رہا جیسے پہلے ہوتا تھا اب ذرا اپنے ملکی حالات پر غور کیجئے اور اور اگر کہیں ملتا ہے تو طرق تلاش کیجئے سلطنت عثمانیہ کو بیو رو کریسی اور اس کے اخراجات چاٹ گئے ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہاہے عوام کو ریلیف دینے کے لئے خزانے میں کچھ بھی نہیں ہے .

لیکن بیو رو کریسی اللے تللے قرض لے کر پورے کئے جا رہے ہیں ایسے لگتا ہے کہ یہ ملک بنا ہی افسر شاہی کے لئے قرض کا پہاڑ اسی طرح کھڑا ہو چکا ہے جیسے سلطنت عثمانیہ کی پشت پر کھڑا ہوا تھا خود مختاری اسی سکڑ رہی ہے جیسے سلطنت عثمانیہ میں سکڑی تھی فیصلہ سازی حکومت کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی منتقل ہوتی جارہی ہے قرض ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سے ہمارے لئے قرض پر سود ادا کرنا بھی مشکل بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرض اور سود کی ادائیگیوں میں جا رہا ہے اور یہ تناسب دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی کہ یہ تناسب کم ہو سکے۔

عالمی مالیاتی ادارے اب براہ راست مداخلت کرکے فیصلہ کررہے ہیں کہ کہاں کتنا ٹیکس لگاتا ہے یہ واردات بالکل وہی ہے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوئی تھی ہماری بیورو کر یسی اس طرح ملکی خزانے اور وسائل کو رہی ہے جیسی سلطنت عثمانیہ کی یورو کریسی جاٹتی تھی عام آدمی کے لئے مشکل اور کڑوے کئے جارہے ہیں لیکن بیورو کریسی کی اندھا دھند مراعات ہیں کوئی کمی نہیں ہورہی ہی محسوس ہوتا ہے ,

حکومت کے نزدیک عوام، عوام کی خواہشات اور عوام کے مسائل کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں۔عوام کی خیر خواہ حکومتیں تو ہمارے حصے میں شاید نہ ہی ہوں لیکن جس ناز سے اس حکومت عوام پر بو جھ ڈالتے ہوئے بالا دست طبقات کے لئے سہولیات مراعات اور آسائشات کا اہتمام کیا یہ حیران کن اور انتہائی تکلیف دہ ہے، سہمی ہوئی رعایا بے شک کسی ردعمل کے قابل نہ ہو لیکن اقدامات کسی بھی آتش فشاں کے پھٹنے کا سبب بڑا سکتے ہیں معاشی حالات بہت خراب اور ناگفتہ بہ اس کے باوجود اشرافیہ اور بیورو کریسی کا لنگر خانہ بند ہونے میں نہیں آرہا ہے ہم سب آتش فشاں پر بیٹھے ہیں حکومت کو عقل کے ناخن لینے کی اللہ ضرورت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں