164

سعدیہ ہماشیخ،منفرد لہجے کی شاعرہ

سعدیہ ہما شیخ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ بی ایس سی،ایم اے پولیٹیکل سائنس،ایم اے پاک سٹڈی،ڈپلومہ ان اسلامک ایجوکیشن اور قانون دان بھی ہیں پنڈی پوسٹ نے ان کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا اس دوران ان کا کہنا تھا کہ لکھنے کا آغاز اسکول دور سے ہی ہو گیا تھا جب اپنی تقریریں لکھنا شروع کیں ادیب پیدائشی طور پر ذہین ہوتا ہے آپ کے اندر ایک بے چینی ہوتی ہے اردگرد کے حالات آپکو لب کھولنے پر مجبور کرتے ہیں اسی طرح معاشرتی نا انصافی اور ظلم ہوتا دیکھ کر میں نے آواز بلند کی اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔سعدیہ ہما شیخ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں نے نثر میں افسانہ ناول کالمز اور سفرنامہ لکھا ہے

میرے کالمز اور افسانے رومانوی نہیں معاشرتی اور اصلاحی ہیں اسی طرح کالمز میں بھی مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل ہوتا ہے میری الحمدللہ 8کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دو شعری مجموعے ایک ناول دو افسانوں کی کتابیں ایک اقوال کی کتاب اور ایک سفرنامہ اور سیرت۔ ہر امت کے وکیل غزل مجھے اس لیے پسند ہے کہ یہ مکمل جذبات کی تشریح کر دیتی ہے اور اس میں ایک موسیقیت ایک ردھم ہوتا ہے مگر اب جدید نظم غزل سے آگے اس لیے جا رہی ہے کیونکہ نظم اوزان سے عاری ہوتی ہے اور غزل سے آسان ہے نظم میں اصلاح میں نے بھی امجد اسلام امجد سے لی بہت گریٹ تھے وہ میری پہلی کتاب پر”اپنی بھرہور“رائے دی۔مجھے افسانہ پسند ہے کیونکہ یہ مختصر ہوتا ہے اب لمبے طویل ناولوں کی فرصت کسی کے پاس نہیں اور ڈرامہ زیادہ انٹریکٹ کرتا ہے

ایک بہترین تفریح عروض کے بغیر تو شاعری ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم جیسے سر کے بغیر سنگیت جسے عروض کا نہیں پتہ اسے میں شاعر مانتی ہی نہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا سرگودھا کا بہت بڑا ادبی حوالہ ہیں اور مجھے یہ فخر ہے کہ میری پہلی کتاب کا فلیپ آغا جی نے لکھا ان دنوں وہ بیمار تھے اور لاہور میں مقیم تھے ان کا خلاء جو کوئی پورا نہیں کر سکتا مجھے ان کی شفقت ملی یہ میرا مان ہے میرے شعری مجموعے وصل میں تشنگی پر انہوں نے فلیپ لکھاہم عصر شاعرات سے میں یہ کہوں گی کہ دوسرے کو کاپی کرنے سرقہ کرنے اور نقل محض سے نکل کر اپنی پہچان بنائیں اور آپ کا کلام بولے۔ثمینہ گل بہت اچھی شاعرہ اور نفیس خاتون ہیں اس کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہیں اکثر مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے اقوال ہما کو لوگوں نے بہت پسند کیا اس پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں محبت چاند کی طرح گھٹتی بڑھتی نہیں کہ وفا دیکھ کر زیادہ اور بے وفائی دیکھ کر کم ہو جائے یہ تو ایک میٹھا زہر ہے

جو آپکی رگوں میں سرائیت کر جاتا ہے ابلیس نے آدم کو سجد ے سے نکار کر کے سب سے پہلے میری مرضی کا نعرہ لگایا اور جنت سے نکل کر زندہ درگور ہو گیا۔جس معاشرے میں ڈگری کا حصول صرف اچھی نوکری کے لیے ہو وہاں اہل علم ناپید ہو جاتے ہیں۔رات کے تیسرے پہر شر اور خیر دونوں قوتیں زور پر ہوتی ہیں یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ رحمان کو چنتا ہے یا شیطان کو۔شعبہ وکالت میری گھٹی میں ہے میرے نانا چاچو اور بھائی سب وکیل ہیں

خواتین کی بدتر حالت دیکھ کر میں نے سائنس چھوڑ کر وکالت کرنے کا فیصلہ کیا۔ادیب پیدائشی طور پر ادیب ہوتا ہے اور شعبہ ٓاپ منتخب کرتے ہیں نا انصافی اور عورت کی آواز بننے کے لیے یہ شعبہ منتخب کیا سپیشلی جیل کی خواتین جو سب سے مظلوم ہیں جن کی کوئی دادرسی نہیں کرتا جیل
ریفارمر کمیٹی کی چیئر پرسن بھی ہوں گھر میری پہلی ذمہ داری ہے اپنے بچوں کی ڈرائیور اور کک بھی ہوں۔
کبھی سوچو تو رشتوں کی ہے پوری کہکشاں عورت
بہن،بیوی کہیں بیٹی کہیں دیکھو ہے ماں عورت
یہ ہر اک روپ میں پیاری یہ ہر اک رنگ میں اعلیٰ
کہیں نازک کلی سی ہے کہیں کوہِ گراں عورت
؎عدالت ہو کہ مکتب ہو شفاخانہ یا دفتر ہو
ہمیں آسانیاں بانٹے جہاں دیکھو وہاں عورت
کبھی گھر میں یہ ماں ہے تو کبھی جج ہے عدالت میں
سدا انصاف کرتی ہے بنے منصف جہاں عورت
ہمیشہ احترامِ باہمی ہے فلسفہ اس کا
غلط فہمی میں مت رہنا کہ ہو گی ناتواں عورت
کہیں پھولوں سے نازک ہے کہیں تصویر ہمت کی
کبھی جھرنا خوشی کا تو کبھی عزمِ جواں عورت
ہما تصویر چاہت کی وفا کا استعارہ ہے
تو استبداد کے آگے ہے جرآت کا نشاں عورت
شاعرہ سعدیہ ہما شیخ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں