بابراورنگزیب،پنڈی پوسٹ/گذشتہ دنوں ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ذریعے پتہ چلا کہ سرکاری سکولوں کی تعداد راولپنڈی میں 1806 سے زائد ہے تو یہ میرے لیے ایک حیران کن تعداد تھی کیونکہ اگر اتنی بڑی تعداد میں سرکاری سکول صرف راولپنڈی میں موجود ہیں تو پھر پنجاب اور پورے پاکستان کا اندازہ لگائیں کہ ان سکولوں کی تعداد کتنی ہوگی مگر اس کے باوجود آج ہر گلی محلے میں پرائیوٹ سکولوں کی بھرمار ہے آج کے دور میں سرکاری سکول میں ٹوٹل بچوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ بچے پرائیوٹ سکولوں کی ایک ایک کلاس میں موجود ہوتے ہیں آخر وجہ کیا ہے کہ آج کے والدین جو خود کسی سرکاری سکول سے تعلیم یافتہ ہوں گے مگر اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروانے سے کتراتے ہیں اور اسکی نسبت ایک پرائیوٹ ادارے کو ترجیحی دیتے ہیں آج ہمیں گورنمنٹ کے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے بجائے مال مویشی باندھے ہوئے نظر آتے ہیں یہ سب ایک ساتھ نہیں ہوا اس کے خلاف ایک منظم سازش کی گئی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ والدین سرکاری سکول کی نسبت کسی نجی ادارے پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں حالانکہ سرکاری سکولوں کی حالت زار اب ماضی کی نسبت بہت بہتر ہے آج کا گورنمنٹ سکول پچھلے بیس سالوں والا سکول نہیں رہا کہ بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہوں گے یا گورنمنٹ اساتذہ کوئی نااہل یا ان پڑھ بھرتی ہوگئے ہیں سابق حکومت نے خاص طور پر پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے کئی احسن اقدام کیے جس کی وجہ سے پنجاب کے سرکاری سکول اور ان کے اساتذہ کسی بھی پرائیوٹ سکول کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور باصلاحیت ہیں مگر اس کے باوجود والدین سرکاری سکولوں کا رخ کیوں نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ گورنمنٹ کی سطح پر عام عوام اور والدین کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور سرکاری سکولوں کے بارے میں آگاہی دینے کا فقدان ہے جو اس کی نسبت پرائیوٹ ادارے باآسانی کر رہے ہیں گلی محلے سے لے کر شہر کے بڑے بڑے بل بورڈوں تک ان پرائیوٹ سکولوں کے سائن بورڈ والدین کو اپنی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں جن میں ادارے کی کارگردگی سمیت دیگر سہولیات کے بارے میں لکھا نظر آتا ہے مگر دوسری طرف ہماری گورنمنٹ جو کسی بھی چیز کی تشہیر کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتی ہے اس طرف توجہ نہیں دیتی سرکاری سکول کے بچے اکثر بورڈز میں نمایاں پوزیشن لیتے ہیں مگر اپنے بچے اور اس سکول کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی بل بورڈ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف سرکاری سکول کی اتنی بڑی بڑی عمارتیں ہوتی ہیں اکثر سکول کا ایک ہال ہی کسی بڑے پرائیوٹ ادارے کے پورے سکول کے برابر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود گورنمنٹ کوئی ایسی پالیسی نہیںبنا سکی جس سے یہ طبقہ پرائیوٹ سکول جو کہ کاروبار کر رہے ہیں انکا مقابلہ کر سکے ہم دیکھتے ہیں بہت سے والدین جو انکی بھاری برقم فیس برداشت بھی نہیں کرسکتے مگر پھربھی اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں ہی داخل کرواتے ہیں۔ ماضی کی گورنمنٹ نے ایک اہم اقدام اٹھایا پہلے سے بنے ہوئے ایک ادارے پیف کو فعال کیا اور نئے سرے سے اسکی بنیاد رکھی جس کا مقصد ان بچوں کو تعلیم جیسی نعمت سے سرفراز کرنا تھا جو نہ تو سکول جاتے تھے بلکہ چائلڈ لیبر کا شکار تھے اس کے علاوہ سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بھی بہتر بنانے کے لیے انکو بھی اس ادارے کے انڈر شامل کیا گیا تاکہ انکی کارکردگی بہتر بنائی
جاسکے اس کے علاوہ ایسی جگہیں جہاں پر سرکاری سکول موجود نہیں اگر ہیں بھی تو کوئی دور دراز علاقوں میں جہاں پر بچوں کا جانا مشکل ہے تو ایسی جگہوں پر بہت سے پرائیوٹ ادارے جو پہلے سے چل رہے تھے انکو بھی اپنی نگرانی میں لے کر انکے اخراجات برداش کرکے تعلیم دوستی کا ثبوت دیا یہ ذمہ داری اس وقت کے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے حلقہ پی پی 10 سے منتخب ایم پی اے ایک پڑھے لکھے شخص انجینئر قمر السلام راجہ کے حوالے کی جنھوں نے علم دوستی کی ایسی مثال پیش کی اور اس ذمہ داری کو ایسے نبھایا کہ چند ہی سالوں میں اس ادارے کو نہ صرف اپنے پاو¿ں پر کھڑا کیا بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بچے تعلیم جیسی نعمت سے مستفید ہونے لگے اور سینکڑوں سکولوں کو پیف نے اپنے ذمے لیا اور ان کے اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا اس ادارے کی کار کردگی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیرون ملک مختلف یونیورسیٹیوں میں باقاعدہ اس ادارے پر ریسرچ کی گئی اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلباءکے لیے ایک چیپٹر رکھا گیا کہ ایک ایسا نیم سرکاری ادارہ جس نے اتنے کم وقت میں لاکھوں بچوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کروانے کے لیے کام کیا ہے اس پر باقاعدہ ریسرچ کی جاتی ہے جو کہ پاکستان کے لیے قابل فخر بات ہے اس کے بعد اس ادارے کی حالت آج کل موجودہ گورنمنٹ میں جس کا نعرہ ہی تعلیم دوستی کے حوالے سے تھا انھوں نے بھی اس ادارے کو اسی طرح سے چلانے کی کوشش کی مگر حالیہ چند ماہ سے کچھ عجیب صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے کیونکہ پیف کے زیر انتظام چلنے والے سکول کے اساتذہ نے تنخواہوں سمیت دیگر سہولیات نہ دینے کاشکوہ کیا ہے اور ایک کھلا خط وزیراعظم سمیت دیگر اعلی حکام کو لکھا ہے۔ دوسری طرف موجودہ پیف کے چیئرمین واثق قیوم عباسی جن کا تعلق بھی راولپنڈی سے ہی ہے انھوں نے اس کو سازش قرار دیتے ہوئے بتایا کہ بہت سے گھوسٹ بچے اور سکول چل رہے تھے جو تنخواہوں سمیت اخراجات لے رہے ہیں مگر جتنی تعداد میں بچے بتائے جارہے ہیں سکولوں میں اتنی تعداد نہیں ہے اس لیے اس معاملے کو دیکھا جارہا ہے اب کتنے بچے اور سکول گھوسٹ ہیں اس کا فیصلہ تو ہوہی جائے گا لیکن اس ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے عناصر اور گھوسٹ سکول اور بچوں کا ریکارڈ دینے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے اس کے علاوہ بھی گورنمنٹ کو ایسے اقدام کرنے چاہیے کہ والدین کا سرکاری سکولوں پر اعتماد بحال ہوسکے اس کے لیے نہ صرف گورنمنٹ بلکہ دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ ہم عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ سرکاری سکولوں کی حالت زار بہتر ہوسکے اور اس ملک کا ہر بچہ تعلیم جیسے زیور سے آرا ستہ ہوسکے ۔
234