پروفیسر محمد حسین
اکثر لوگ زندگی کی زبان سیکھے بغیر زندگی کی کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں یہاں زندگی کی زبان سے مراد زندگی گزارنے کا فن زندگی کے گہرے رازوں سے آشنائی قوانین فطرت کو جاننا اور استعمال میں لانا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام بنایا ہی ایسا ہے کہ یہاں زندگی کا سفر کبھی ہموار راستوں پر طے نہیں ہوتا بلکہ اس میں کئی نشیب و فراز اور دشوار گزار گھاٹیاں اور راستے آتے ہیں کبھی بلندیوں پر چڑھنا ہوتا ہے اور کبھی ڈھلوانوں کی طرف اترتا ہوتا ہے الغرض زندگی کے سفر میں کئی قسم کی رکاوٹیں اور دشواریاں ہوتی ہیں جن سے کامیابی سے گزر ہی کر ہی منزل پر پہنچنا نصیب ہوتا ہے اب جو شخص زندگی کے قوانین سے واقف ہوگا وہ ہر موقع پر بہترین طرز عمل اختیا ر کرتے ہوئے مشکل مرحلے سے گزر جائے گا لیکن جو شخص زندگی کے ضابطوں کو نہیں جانتا اس کے لیے مشکل حالات ہیں درست طرز عمل اختیار کرنا مشکل ہو گا اور اس طرح غلط روش اختیار کرتے ہوئے آپ کو ناکامی سے ہمکنا ر کر لے گا اور مایوسی بے یقینی میں مبتلا ہو کر اپنی محرومیوں میں مزید اضافہ کرتا چلا جائے گا منظر غائر دیکھا جائے تو لوگوں کا بہت بڑی اکثریت جوناکام زندگی گزار رہی ہے اس کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ زندگی کے قوانین کو جانے اور سمجھے بغیر زندگی گزار رہے ہیں زندگی کے ان قوانین کا سب سے بڑا منبع اور سر چشمہ قرآن مجید ہے جو حکمت و دانائی کے گہرے رازوں کا خزانہ ہے اور جس کا علم یقینی قطعی اور حتمی ہے قرآن مجید کے بعد احادیث مبارکہ ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے جملوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے علاہ ازیں سائنسی علوم اور خصوصا سائنس کی اہم شاخ علم نفسیات نے بھی اس حوالے سے کافی سوچ بچار کی ہے جس کے نتیجہ میں کئی اہم حقائق کو سمجھنے میں مد د ملتی ہے زندگی کامیابی و کامرانی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ضبطوں کو سمجھا جائے اور انھیں موقع بہ موقع استعمال میں لایا جائے تو زندگی میں آنیوالے مصائب و مشکلات کے طوفانوں کا مقابلہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے ذرا سوچئیے رات کے مقابلے میں دن نہ ہوتا توپھر رات کو کس نے کہنا تھا اسی طرح گرمی کا تصور اسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب اس کے مقابلے میں سردی کا تصور موجود ہو غور سے دیکھا جائے تو زندگی کا سارا حسن بھی ان اضداد میں ہے ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر مکمل ہوتی ہے راحت اور تکلیف،دکھ اور سکھ،خوشی اور غمی،امارت اور غربت سب جوڑا جوڑا ہیں جس جگہ صرف سکون اور راحت ہے اس کانام جنت اور جس جگہ صرف دکھ اور کلفت ہے اس کانام جہنم ہے اور یہ دونوں مرنے کے بعد ہیں جہاں تک موجودہ دنیاکا تعلق ہے یہاں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں یہاں نہ کس کے لیے دکھ سے خالی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جس کی زندگی میں صرف دکھ ہوں اور سکھ کوئی بھی نہ ہو حضرت آدم ؑ سے لیکر قیامت تک کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی زندگی مسائل سے مکمل طور پر خالی ہو فرق صرف اتنا ہے کہ ہر کسی کے مسائل اس کے حسب حال ہوتے ہیں اسی طرح ہر کسی کی نعمتیں بھی اس کے حسب حال ہوتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ دینے والنے نے عین حکمت کے تحت دیا ہے اب ہم اسے استعما ل کس طرح کر رہے ہیں اس پر ہماری کامیابی اور نا کامی کا دارو مدار ہے نیز دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم ملے ہوئے پر کس حد تک مطمئن ہیں خالق کائنات نے قرآن مجید میں جابجا اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ دُنیا میں رہتے ہوئے ہر شخص کو کبھی نہ کبھی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہ سب کچھ عین حکمت او ر مصلحت کے تحت ہوگا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مسائل سے خالی زندگی آرزو اپنے سینے میں لئے غیر متوقع ہو تا ہے، اور وہ ہمارے اندرونی سکون کو درہم برہم کر دیتا ہے اگر ایک مرتبہ ہم یہ حقیقت اچھی طرح ذہین نشین کر لیں کہ دُنیا میں رہتے ہوئے مسائل سے مکمل طور پر خالی زندگی کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے تو ہماری زندگی کہیں آنے والے مسائل غیر متوقع نہیں ہوں گے اور انہیں برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔ اور پھر یہ کہ ہم مسائل سے خالی زندگی کے جو بہت زیادہ کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ذہنی دباؤ کی حالت میں رہتے ہیں اس میں کمی آ جائے گی رات آئی ہے تو ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اب ہمیشہ رات ہی رہے گی لیکن چند گھنٹوں کے بعد اسی تاریکی کے دامن سے صبح سویرا طلوع ہو جاتا ہے کوئی بھی رات اتنی لمبی نہیں ہو سکتی کہ وہ آنے والی صبح کو آنے سے روک دے بات صرف اتنی ہے کہ رات کے آنے اور جانے کا وقت مقرر ہے نہ وہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ ہی وقت کے بعد رہ سکتی ہے۔ اسی طرح ہر مسئلہ کے حل ہونے کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ انسان کے اندر جو فطری کمزوریاں رکھی گئی ہیں ان کے پیش نطر انسان حالات کی ناسازگاری کو دیکھ کر پست ہمت اور مایوس ہو جاتا ہے۔ دوسری غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ اپنی عجلت پسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر چاہتے ہیں۔ کہ مسئلہ فوراً حل ہونا چاہیے اس کوشش میں بعض اوقات ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کے نتیجے میں صورت حال سنورنے کے بجائے مزید بگڑ جاتی ہے اگر ہم اس حقیقت کو ذہین نشین رکھنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہر مسئلہ کی ایک خاص مدت ہوتی ہے۔ جس کے بعد اسے ختم ہو ہی جانا ہے تو ہم ذہین کو پر سکون رکھتے ہوئے زیادہ اور بہتر انداز میں اُس کا سامنا کر سکتے ہیں اور حکمت و دانش کو استعمال کرتے ہوئے اُلجھی ہوئی گرہوں کو سلجھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر حیرت انگیز صلاحتیںِ توانائیاں ، اور اسقدا دیں رکھی ہیں۔ جن کے عدم استعمال کی وجہ سے انہیں زنگ لگ رہا ہے۔ اور ہم دُنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہمیں اپنے من میں جھانک کر اپنے اپ کو پہچاننا ہوگا تاکہ اپنی طاقتوں اور مقام و مرتبہ سے آشنائی ہو اور ان میں ہمارا یقین قائم ہو ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی گمانوں سے مغلوب ہو کر ہر کام کو اپنے لیے ناممکن سمجھ لیتے ہیں۔ اور حالانکہ ناممکن کا لفظ فقط احمقوں کی رفت کا حصہ ہوتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم منفی پست اور مایوس کن سوچوں کے حصار سے باہر نکلیں اپنے اپ کو پہچانیں اور اپنی صلاحتیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں کائنات کی عظمتیں ہمارے سامنے سرنگوں ہونے کو بے تاب ہیں اور مسائل حل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
411