ایک مفلس اور خستہ حال انصاری صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنی ضرورت اور حاجت ظاہر کی۔ آپ سے کچھ رقم اور امداد کی درخواست کی۔ آپ نے دیکھا کہ وہ جسمانی طور پر تندرست اور توانا ہیں۔ کام کاج کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ آپ نے اسے کچھ دینے کے بجائے سوال کیا۔ کیا آپ کے گھر میں کچھ سامان ہے؟ وہ غریب صحابی آپ کے غیر متوقع سوال سے حیران ہوئے،
پھر گویا ہوئے کہ اس کے پاس ایک ٹاٹ ہے۔ جس سے وہ بستر کا کام لیتے ہیں۔ اس ٹاٹ کے آدھے حصے کو نیچے بچھا اور آدھے کو اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہے، جسے وہ پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں چیزیں لے آئیں۔ وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے حاضرین مجلس کا مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں خریدنے کے لیے کون تیار ہے؟ ایک صاحب نے عرض کیا کہ وہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لے سکتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہوتو بتائے۔ آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی۔ ایک دوسرے صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور دو درہم آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ نے دونوں چیزیں ٹاٹ اور پیالہ دے دیے۔ دو درہم جو انہوں نے دیے، وہ آپ نے انصاری صحابی کو دے کر فرمایا کہاکہ اہل خانہ کے لیے ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان خرید لو،
اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی بازار سے خرید کر میرے پاس لے کر آو ¿۔ انہوں نے بازار جاکر سودا سلف اور کلہاڑی خریدی۔ سامان گھر دیااور کلہاڑی لے کر آپ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ڈالا، پھر ان سے فرمایا کہ کلہاڑی لے کر جنگل نکل جاو ¿، لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچو، پندرہ دن مجھے نظر نہ آو ¿، زیادہ سے زیادہ وقت محنت اور کمائی ہی میں لگاو ¿۔ وہ صحابی چلے گئے۔ کام کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے۔
انہوں نے اس سے گھر والوں کے لیے خور ونوش اور دیگر ضروریات کا سامان خریدا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضری دی۔ آپ کو ساری صورت حال سنائی۔ آپ خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ محنت کرکے کمانا دوسروں سے بھیک مانگنے اور قیامت کے دن تمہارے چہرے پر اس کا داغ اور نشان ہونے سے بہتر ہے
رمضان المبارک شروع ہوچکا ہے کہ اس مبارک ماہ میں نوافل کا ثواب فرضوں اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے
یعنی ہر نیک کام جو کہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے کے ثواب میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے سے صاحب احثیت لوگ زیادہ ثواب کی نیت سے اپنے مال کی زکواۃ رمضان المبارک میں دینے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ غریب و مسکین کی سحری وافطاری کا اہتمام بھی بہترین ہوسکے اور عید کی خوشیوں میں بھی پوری طرح شامل ہوسکے اسی مناسبت سے رمضان کے آغاز سے ہی رمضان پیکج‘راشن اور عیدتحائف کے ساتھ ساتھ نقدی دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے
اور یہ کوشش کی جاتی ہے ان کے مال کا حصہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں کا پہنچ جائے عموماً ایک لاکھ روپے کی رقم کو تیس چالیس یا پھر سے بھی افراد کو مختلف مد میں تقسیم ہوتی ہے اس چند سو یا ہزار کی معمولی نقدی رقم یا اس سے خریدے راشن سے غرباء اور مساکین کا چند دن کا نظام تو چل جاتاہے لیکن پھر وہی حال اور آنیوالے سال کیلئے دوبارہ نقدی و راشن کیلئے اسی شخص سے آس امید باندھ لیتے ہیں
دوسرے لفظوں میں لینے والے عادی بن جاتے ہیں ان میں اکثریت ایسے افراد کی بھی ہوتی ہے جوکہ صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی قابلیت وصلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسے کوئی مالی وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنا کام یا چھوٹا کاروبار شروع کرسکیں اگر ہر سال بہت زیادہ افراد کو زکواۃ دینے کی بجائے چند ایک ایسے افرادکی کاروبار کرنے کیلئے مالی امداد کی جائے
وہ چند ماہ میں اپنے
پاؤں پر کھڑا ہوکر معاشرہ پر بوجھ بننے کی بجائے اس کا سہارا بننے کا قابل ہوسکتے ہیں اس سے غریب شہریوں کی عزت نفس بھی بحال ہوگی غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ آقا دوجہاں محمدﷺ کی سنت کی ادائیگی بھی ممکن ہوگی اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت والی زندگی عطا فرمائے