130

روات کے بااثر مافیا کے سامنے ضلعی انتظامیہ بے بس/چوہدری عقیل احمد

روات ،گم نام بھی نہیں کم نام بھی نہیں لیکن اسکے نام میں روا شامل ہے جس سے نکالنے والوں نے یہ تعبیر نکالی ہے کہ روات پر تمام مشکلات روا ہیں یہ قصبہ ایسے مقام پر واقع ہے جہاں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اس منظر کو یوں سمجھئیے جیسے دو حسینائیں کوڑے کے ڈھیر پر کیٹ واک کر رہی ہوں آج یہ بانکا قصبہ جہاں بڑوں کی آشیر باد میں پھلنے پھولنے والے دیگر امراض کے ہاتھوں سسک رہا ہے وہاں تجاوزات مافیا کے ہاتھوں میں صید زبوں کی طرح پھڑک بھی رہا ہے تجاوزات اور ٹرانسپورٹ کے خودساختہ غیر قانونی اڈے بھی در اصل کسی علاقے کی آبادی کی زندگی اتنی ہی اجیرن کر ڈالتے ہیں جتنا گندگی سے اٹھنے والا تعفن ۔تجاوزات مافیاء نے کئی سال سے قصبے کا دم گھونٹ رکھا ہے لوگ کھل کر سانس لینے کے بھی روادار نہیں رہے اقتدار سے سرافراز طبقہ علاقہ کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ تو بہت کرتا ہے قصبہ کو مثالی بنانے کے بلندو بانگ دعوے کئیے جاتے ہیں لیکن جب سوال اٹھتا ہے سرکاری جگہ پر تجاوزات کا تو ان میں اکثریت کان لپیٹ لیتی ہے ان تجاوزات کی تشویشناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جی ٹی روڈ تو ایک طرف اس شاہراہ سے نکلنے والی بغلی سڑکیں تک اسکی زد میں ہیں عوام بہت چیخ چلا چکے مگر حکام باالخصوص رورل انتظامیہ اسلام آباد کے کانوں تک جوں بھی رینگ نہ پائی بار ہا مرتبہ انتظامیہ کی طرف سے آپریشن کے بلندوبانگ دعوے کئیے گئے تجاوزات مافیا کوتجاوزات کے خاتمہ کیلئے تحریری نوٹس بھی دئیے گئے مگر با الاخر انتظامیہ حسب سابق قصبہ میں موجود بااثر مفاد پرست سیاسی گروپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نظر آئی سرکاری آراضی کہنے کو تو ریاست اور اسکے عوام کا اثاثہ ہوتی ہے مگر جب وہ لوگ جنہیں عوام خود پر حکمرانی کا حق عطا کرتے ہیں حکمرانی کو باپ کی چھوڑی ہوئی وراثت سمجھنے لگ جائیں تو پھر قبضہ گروپ بھی ان زمینوں کو شیرمادر کیوں نہ سمجھے جس کے ہاتھ پاؤں دوسروں سے زرہ زیادہ لمبے نکل آئیں اسکے لئیے اس ملک خداداد میں سرکار کو خرکار بنا لینا کیا مشکل ہے جہاں جگہ خالی پڑی دیکھی اسے ذاتی جاگیر بنا لیا اور پھر بس دے مار ساڑھے چار ریڑھیاں اور کھوکھے سج جائیں گئے اور کرائے بٹورنا شروع ہو جائے گا یہ لاکھوں روپے ماہانہ کا کاروبار ہے بااثر قبضہ گروپ اس ناجائز آمدنی کیلئے انسانی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے لہٰذہ ایک عام شہری کیلئے ان سے ٹکر لینا گویا جان سے گزرنا اور جن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے ان کے حال سے کون آگاہ نہیں کہ سرکار کا خزانہ جائے بھاڑ میں ،سرکاری جگہ پر قائم ناجائز تجاوزات کی مد میں ایک طرف تو قبضہ گروپ ماہانہ لاکھوں روپے بٹور رہا ہے دوسری طرف سرکار کو ماہانہ لاکھوں روپے کی پھکی مل رہی ہے کیوں کہ اگر باضابطہ طور پر رورل انتظامیہ سرکار سے مخلص بن کر فرض شناسی کا مظاہرہ کرے اور تجاوزات کو ختم کر کے ریڑھی بانوں اور کھوکھہ مالکان کو ایک مخصوص جگہ منتقل کر کے ماہانہ کرایہ وصول کر لیا جائے تو لاکھوں روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع ہو سکتی ہے جبکہ تجاوزات کے حوالے سے درپیش عوامی مشکلات کا با آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے دوسری طرف ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے غیر قانونی اڈے بھی ٹریفک میں خلل کا باعث بننے کی بڑی وجہ بن چکے ہیں شہر میں موجود غیر قانونی اڈوں کے خاتمہ کے حوالے سے موٹروے پولیس کا کردار بھی غیر تسلی بخش ہے موٹروے پولیس کا مؤقف ہے کہ شہرمیں موجود تمام معاملات ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اس وقت روات شہر میں واقع جی ٹی روڈ کے کنارے ،جاوا روڈ اور سروس روڈ مکمل طور بااثر قبضہ گروپ کے نرغے میں ہے جہاں مذکورہ گروپ ریڑھیاں اور کھوکھے قائم کروا کر فی کس 3000 ہزار روپے 10 ہزار روپے تک کرایہ کی مد میں سرکاری جگہوں سے بھتہ وصولی کر رہا ہے جس پر انتظامیہ نے دانستہ آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کھوکھوں کے خلاف کوئی محض آواز بھی بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بڑے پراصرار انداز میں اسکی آواز دبا دی جاتی ہے دیکھا دیکھی دکانداروں نے اپنی دکانوں کے سامنے واقع جاوا روڈ اور سروس روڈ پر کھوکھے لگوا کر اپنی تجوریاں بھرنی شروع کر رکھی ہیں شہر میں تجاوزات کی خطرناک صورتحال کے باعث 20 فٹ سے چوڑی جاوا روڈ محض 8 فٹ رہ چکی ہے جہاں سے گاڑیاں گزارنا تو درکنار پیدل گزرنا بھی محال ہو چکا ہے اور یہی صورتحال سروس روڈ کی ہے اور سروس روڈ کی رکاوٹ میں بھی یہی قبضہ گروپ ملوث تھا جنھیں معلوم تھا کہ اگر سروس روڈ مکمل ہو گیا تو انکی ماہانہ ناجائز تجاوزات کی مد میں اکٹھی ہونے والی ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدن ٹھپ ہو جائے گی تجاوزات کے اضافے کی ایک اور بڑی وجہ شہر میں موجود ٹرانسپورٹ کے بیشتر غیر قانونی اڈے ہیں ٹرانسپورٹر موٹروے پولیس کی چشم پوشی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے جی ٹی روڈ کے اطراف اور شہر کے وسط میں گاڑیاں کھڑی کر کے غائب ہو جاتے ہیں جبکہ جی ٹی روڈ کے کنارے جاوا روڈ چوک اور پھر کلرسیداں چوک میں ٹیوٹا ہائی ایس گاڑیوں کے خودساختہ اڈوں اور سڑک کے درمیاں گاڑیاں کھڑی کر کے مسافروں کو بٹھانے اتارنے کے باعث ٹریفک اکثر و بیشتر جام ہو جاتی ہے جاوا روڈ چوک میں ٹیوٹا ہائی ایس گاڑیوں کے ڈرائیور وں اور پرائیویٹ گاڑی مالکان کے درمیان راستہ بند ہونے کے باعث کئی بار لڑائی جھگڑے بھی ہو چکے ہیں جبکہ سواں اڈہ پر تعینات وارڈن ٹریفک پولیس کے عملہ کی مبینہ آشیرباد سے دوسرے روٹ پر چلنے والی ٹیوٹا ہائی ایس گاڑیاں روات تک پہنچ جاتی ہیں جو ٹریفک کی بندش کا سبب بنتی ہیں روات شہر میں تجاوزات کی گھمبیر صورتحال کے بارے میں عرصہ دراز سے عوامی شکایات کے باوجود نہ جانے کونسے محرکات پس پردہ ہیں کہ ضلعی انتظامیہ اتنے اہم ایشو پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے اگر ذمہ داری اور فرض شناسی کو نبھاتے ہوئے میرٹ پر غیرجانبدارانہ آپریشن کیا جائے تو قوی امکان موجود ہے کہ روات شہر میں موجود چند بلندوبالا عمارتیں بھی تجاوزات کی زد میں آسکتی ہیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو چاہئیے روات میں آئے روز خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی تجاوزات کے خاتمہ میں کردار ادا کریں اور رورل انتظامیہ کی چشم پوشی اور نااہلی کا فوری نوٹس لیکر سیاسی مداخلت ختم کروا کر آپریشن کلین اپ شروع کیا جائے{jcomments on}


خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں