223

راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈیڑھ ارب کرپشن کا انکشاف

راولپنڈی (نمائندہ پنڈی پوسٹ) راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) میں 1 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کی مبینہ خورد برد کا انکشاف ہوا ہے آر ڈی اے کے فنانس ڈائریکٹوریٹ میں یہ خورد برد جعلی سی ڈی آرز کے ذریعے کنٹریکٹرز اور وینڈرز کو بھاری ادائیگیوں کی مد میں کی گئی ہے یہ ادائیگیاں نیشنل بنک سٹی برانچ میں واقع آرڈی اے کے اکاؤنٹ سے کی گئیں 1.644 ارب روپے کی کرپشن اور بے قاعدگیاں سامنے آنے پر آرڈی اے کی ڈائریکٹر جنرل نے مقدمہ کے اندراج کے لئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے میگا کرپشن کی مکمل تحقیقات کرکے مروجہ قوانین کے تحت ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کر کے سخت ترین کاروائی کی جائے اور قومی رقوم واپس لائی جائیں لیٹر میں کہا گیا ہے کہ ادارے میں نوتعینات شدہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس II نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ نیشنل بنک سٹی برانچ میں موجود آرڈی اے کے اکاؤنٹ میں رقوم غائب ہیں جس پر سابق و موجودہ ڈائریکٹر فنانس اینڈ ایڈمن I اور سابق و موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس II کو ایک سوالنامہ دیا گیا جس میں ان سے وضاحت طلب کی گئی لیکن اس دوران سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس جنید نے جو اس وقت ڈی جی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر (پی ایچ اے) سیالکوٹ ہیں نے اپنے دفتر میں خود کشی کر لی جبکہ دیگر افراد کی طرف سے بھی سوالنامہ کا کوئی جواب نہیں دیا گیا

اس دوران محکمانہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ دفتر سے اصل سی ڈی آرز غائب ہیں جس پر بذریعہ لیٹر نیشنل بنک سٹی برانچ لیاقت باغ سے تفصیلات طلب کی گئیں اور بنک کو کسی بھی طرح کے چیک اور پے آرڈرز پر کنٹریکٹرز اور وینڈرز کو ادائیگیاں روکنے کا کہا گیا نیشنل بنک کی جانب سے ملنے والی فہرست کے مطابق 26 مختلف پارٹیوں کو بھاری ادائیگیاں کی گئیں

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 9 سال کے دوران آرڈی اے کے اکاؤنٹ سے فرضی کمپنیوں کو بھاری ادائیگیاں کی گئیں اور جعلی وینڈرز کے نام پر سی ڈی آرز کے ذریعے 21 مشتبہ ٹرانزیکشن سامنے آ گئیں اس مقصد کے لئے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فنانس کے دستخطی اختیار کا غلط استعمال کیا گیا ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی بنکوں کو فنڈز ٹرانسفر کرنے والی کمپنیوں کا ڈیٹا طلب کر لیا گیا جبکہ تحقیقات میں ملوث فرضی کمپنیوں، افراد اور آرڈی اے افسران کی فہرست تیار کر لی گئی ہے اور ابھی تک خورد برد میں شامل 8 کمپنیوں اور 13 افراد کے نام سامنے آئے ہیں تحقیقاتی ٹیم نے بنکوں اور آرڈی اے کے دفاتر سے اہم شواہد اکٹھے کر لئے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں