186

دہشت گردوں کے سہولت کار کون؟/طاہر یاسین طاہر

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
خواجہ میر درد کا یہ شعر آج کے ہر پاکستانی کا ترجمان ہے۔البتہ دہشت گردوں کے سہولت کار وں کو استثنیٰ ہے، انھیں نہ تو فنونِ لطیفہ سے دلچسپی ہے نہ شعر و ادب سے۔ان کے منہ انسانی خون لگ چکا ہے اور بس!شعر و ادب،موسیقی،فلسفہ اور فنونِ لطیفہ جیسے علوم سے تو اہلِ فکر کا تعلق ہوا کرتا ہے،لکیر کے فقیر ایسی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں۔خواجہ میر درد کے عہد میں البتہ نہ تو طالبان تھے نہ القاعدہ، نہ انصار الاحرار تھی نہ لشکرِ اسلام،نہ داعش کا وجود تھا نہ مولوی عبدالعزیز کا ،نہ شاہد اللہ شاہد تھا ،نہ احسان اللہ احسان ،اس کے باوجود خواجہ میر درد ایسے صوفی شاعر نے ایسا شعر کہا تو لازماً اس کی کوئی نہ کوئی سماجی و معاشرتی وجہ ضرور ہوگی جس نے درد کو یہ شعر کہنے پر مجبور کیا۔آج کا شاعر دہشت گردی اور سانحہ پشاور کو کیسے بھول سکتا ہے؟آج کا ادیب انتہا پسندی کا کیونکر فراموش کر سکتا ہے؟اگر آج کا ادیب اور قلم کار اپنے سماجی ماحول سے کٹ کر لب و رخسار کے قصے تک محدود نہیں رہ سکتا تو کلاسیکل ادب کے نامور شاعر کیسے یہ’’جرم‘‘ کر سکتے تھے؟بے شک خواجہ درد کے عہد میں بھی طالبانی فکر فروغ پذیر ہوئی ہو گی۔فتوی ٰ گروں نے ہر عہد کے انسان کو پریشان کیے رکھا۔بے شک درد کے عہد میں بھی زبان و بیان پر قدغن لگانے والے دشنام در دہن ہوئے ہوں گے۔زندگی ایسے ہی طوفان نہیں ہوتی۔اس کے اسباب ہوا کرتے ہیں۔گاہے دل کرتا ہے کہ خواجہ کے عہد کے سماجی اور مذہبی رویوں کا مطالعہ کیا جائے اور ابنِ تیمیہ کے فکری رویے کی جھلک دیکھی جائے۔بے شک کسی دن یہ کام کر گزروں گا۔تاریخ فقظ لذت اندوزی کے لیے نہیں ہوتی۔اس میں اسباق ہوتے ہیں مگر ان کے لیے جو عقل کو رہنما مانتے ہیں۔جو سوچتے ہیں ،تعصب سے پاک ہوتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہوئے اپنی قبائلی روایات او ر خاندانی عقائد کی پرواہ نہیں کرتے۔
اخباری دانشوروں نے قاتلوں کو ہیرو تراشنے کا کام بڑی جانفشانی سے کیا،افغانوں کو اسی ایک نعرہ نے تباہ کر دیا’’کہسار باقی،افغان باقی‘‘ کہسار تو باقی ہیں اٖفغان مگر کہیں کے نہیں رہے۔کچھ روس کے کام آئے تو کچھ ملا عمر کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ہم اس سارے کھیل کے مذہبی کھلاڑی بنے رہے۔تاریخ بہت سے راز افشا کرتی ہے۔قومیں تلاطم خیز موجوں سے کیسے نمٹتی ہیں؟ یکسوئی سے،ہمت سے، ولولے سے،بیداری سے ،ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک قوم ہی نہیں بن پائے،ہم مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے مشتعل افراد ہیں۔ورنہ کیا طالبان اور کیا ان کے حمایت کار۔کیا ریاستی طاقت کے سامنے دم مار سکتے تھے؟کبھی بھی نہیں، حکومتیں مگر اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث قومی مفادات کا سودا کرتی رہی ہیں۔مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اپنے فتوؤں کی زد میں رکھا۔حتیٰ کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی لبرل سیاسی جماعتیں بھی انتہا پسندوں کے ساتھ’’امن معاہدے‘‘ کرتی رہیں۔کیا امن دہشت گردوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے قائم ہوتا ہے؟نون لیگ کی تو بات ہی اور ہے۔نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ہمارا اور طالبان کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ گاہے پنجاب حکومت کی طرف سے یہ بیان آتا کہ طالبان پنجاب پر حملہ نہ کریں۔پی ٹی آئی کی کالعدم تحریکِ طالبان سے ہمدردیاں نا قابلِ فراموش ہیں۔پشاور میں طالبان کو دفتر بنا کر دینے کی پیشکش تک کی گئی۔طالبان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں۔مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان ہر دردمند پاکستانی کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستا رہا کہ ہمارا اور طالبان کا دل ایک ساتھ دھڑکتا ہے۔مولانا سمیع الحق کہتے ہیں طالبان ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارے بچے ہیں۔جماعت اسلامی کے سابق امیر کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید اور پاک فوج کے سپاہی شہید نہیں ہیں۔اسلام آباد کی ایک لال مسجد کا سی ڈی اے کا ملازم مولوی سانحہ پشاور کی مذمت کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور ریاست اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز پا ہے۔آج بھی جماعت اسلامی کا دل طالبان کے ساتھ دھڑکتا ہے ،جس کے امیر نے کہا کہ ہم فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہیں۔یہ امر نا قابلِ تردید ہے کہ کچھ عرصے بعد طالبان کے یہی حمایتی ایک بار پھر ان کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔قومی مزاج کو بھانپتے ہوئے سانحہ پشاور کی مذمت اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کی اور سمیع الحق نے بھی،مگر یہ جز وقتی ہے۔یہ جانتے ہیں پاکستانی زود فراموش ہیں۔کیا یہ لوگ نام لے کر ملا عمر خراسانی کی مذمت کر سکتے ہیں؟کبھی بھی نہیں، یہ اگر،مگر کے ساتھ کہیں گے کہ اگر یہ حملہ طالبان نے کیا تو بہت برا کیا۔بھئی اگر مگر؟ طالبان خود تسلیم کر رہے ہیں۔ہمارے بچوں کے قاتلوں سے ہمدردی رکھنے والے بھی قاتلوں کے ساتھی شمار کیے جائیں۔وزیر اعظم صاحب کا بیان دیکھا تو گھنٹوں اس پر سوچتا رہا۔ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ ایک آپریشن ضربِ عضب پہاڑوں میں جاری ہے تو ایک آپریشن شہروں اور دیہاتوں کے اندر بھی کیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہو گا؟جب شہروں اور دیہات میں بسنے والے دہشت گردوں کے سہولت کار زیرِ زمیں چلے جائیں گے؟
کیا ڈاکٹر عثمان اور ارشد کے بڑے جنازے آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟کیا ڈاکٹر عثمان کو شہید کہنے والے ریاستی اداروں کی نظر سے پوشیدہ ہیں؟بہت کچھ آشکار ہے،عوامی حمایت زوروں پر ہے،حکومت بیان بازی کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے بڑے ہیڈ کوارٹر مولوی عبدالعزیز کے ٹھکانے کی خبر لے۔دیہاتوں اور شہروں میں طالبانی فکر والے مدارس کی چھان بین کرے اور نمازِ جمعہ کے خطبات پر نظر رکھے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔بہت سے مدارس والے تو ایسے ہیں کہ بات بات پہ ریلیاں نکالنے کو تیار رہتے ہیں، افرادی قوت ان کے پاس ہے اور بلیک میل کرنے کا ہنر بھی۔حکومت دیکھے کہ کون کون سے مدارس نے سانحہ پشاور کے خلاف نکالی گئی ریلی میں حصہ نہیں لیا یا اس میں شرکت سے اجتناب کیا۔بہت کچھ سامنے آجائے گا اور حکومت کو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کرنے میں سہولت رہے گی۔اگرحکومت یہ سب نہیں کرتی اور صرف کمیٹیاں بنا بنا کر دہشت گردی سے نمٹنا چاہتی ہے تو یہ ایک بے معنی پریکٹس ہو گی۔طالبان ہوں یا داعش،یا کوئی اور دہشت گروپ سب کا علاج ایک بھرپور فوجی آپریشن ہی ہے اور فوجی آپریشن کی کامیابی اسی میں ہے کہ دہشت گردوں کے’’سلیپرز سیل‘‘ ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیے جائیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں