80

داعش کے سعودی عرب پر خود کش حملے/طاہر یاسین طاہر

اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے،کون ہے جسے اس سے انکار ہے؟اسلام روادای اور اخوت کا مذہب ہے۔کئی ایک بار لکھا مکرر عرض ہے،آیت کا مفہوم یہی ہے کہ’’ جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان لی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان لی اور جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی‘‘اسلام کو مگرہم نے اپنی اپنی قبائلی روایات کا پاسدار بنا لیا۔افغانیوں نے تو بالخصوص اسی اسلام کو اپنے معاشرے میں جگہ دی جسکی اس کا قبائلی معاشرہ اجازت دیتا تھا۔ابھی کل کی بات ہے، جماعت اسلامی،اے این پی اور پی ٹی آئی نے ایک ’’خاموش‘‘ معاہدے کے تحت عورتوں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ہم اسلام کو آلِ سعود پر اتری ہو ئی آیات کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی تاریخی غلطی بھی ہے اور فکری مغالطہ بھی۔سادہ بات یہی ہے کہ جب زورآور قبائلی معاشرہ آوارہ گروہوں کی مذہب کے نام پر سر پرستی کرنے لگیں گے تو سماج میں ہیجان پیداہوگا۔ہمارے ہاں،بالخصوص مسلمانوں میں یہی ہوا۔1970-1980کی دھائی میں دنیا بھر کے آوارہ اور سماج بے زار افراد کو پاکستان کے راستے افغانستان والے’’ امریکی جہاد‘‘ کی راہ پر ڈال دیا گیا۔تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔عربوں کا ایک سامہ بن لادان ہوا کرتا تھا جو ایبٹ آباد میں امریکی شکار بنا۔افغانستان جہاد کی ٹریننگ کے لیے جانے والے افراد کو باقاعدہ کہا جاتا تھاکہ ہمارا دشمن صرف روس ہی نہیں بلکہ’’رافضی‘‘ بھی ہیں۔نوجوانوں کے لیے پر کشش بات یہی تھی کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئی ’’واسطہ‘‘ نہ ہو، عموماً اس آیت سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔آخری تجزیے میں جذباتیت کے سہارے سیاسی مفادات کی آبیاری کی گئی۔باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ایک ایک کر کر کے طشت ازبام کرتا رہوں گا۔تازہ المیہ مگر سعودی عرب کے مشرقی صوبیقطیف کی ایک شیعہ مسجد میں خود کش حملہ ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔یاد رہے کہ القاعدہ اور النصرہ کے بعد داعش کی سرپرستی سعودی عرب کرتا چلا آہا ہے،سعودی عرب کے سرکار ی مفتی صاحب جو حال ہی میں پاکستان کے دور ے پہ تھے،داعش کے حق میں فتوے جاری کیے کرتے تھے۔یہاں تک کہ داعش کے ’’مردوں‘‘ کے لیے’’ جہاد النکاح‘‘ کا شرم ناک فتویٰ بھی جاری ہوا۔حالات نے پلٹا کھایا تو پاکستان کے سرکاری دورے پہ آئے ہوئے سعودی عرب کے سرکاری مفتی نے داعش اور القاعدہ و طالبان کو اسلام دشمن قرار دیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیوں؟اس لیے کہ داعش کعبہ پر حملے کو پر طول رہی ہے اور سعودی بادشاہت کو امریکی سامراج کا دستِ راست سمجھتی ہے۔کیا ایسا ہی ہے؟جبکہ سعودی عرب کا سرکاری مؤقف تو یہی ہے کہ حوثیوں سے حرمین شریفین سے خدشہ ہے۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ایک آرٹیکل میں بہت سی چیزیں سمو کر ان کا تجزیہ مشکل ہے۔سر دست ہم سعودی عرب کے صوبے قطیف میں ہونے والے خودکش حملے کے مختلف زاویوں کو دیکھتے ہیں۔یہ حملہ شیعہ مسلمانوں کی مسجد پہ کیا گیا۔کیوں؟ اس لیے کہ یہ لوگ القاعدہ،النصرہ،داعش اور سعودی عرب کے سرکاری مذہب کے مطابق واجب القتل ہیں۔یاد رہے کہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر ایک خودکش حملے میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔دہشت گرد تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔یہ دھماکہ القعدہ نامی گاؤں میں واقع امام علی مسجد میں نمازِ جمعہ کے موقع پر ہوا۔سعودی وزیر صحت نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اس حملے میں کم از کم 21 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق مسجد میں دھماکے ،کے وقت ایک اندازے کے مطابق 150 افراد موجود تھے۔سعودی وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور نے مسجد کے اندر داخل ہو کر دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق سعودی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی اس واردات کے ذمہ داران کی تلاش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔سوال مگر یہ ہے کہ جب حملہ آور عیاں ہیں تو انھیں تلاش کرنے میں دشواری کیا ہے؟ جبکہ سعودی عرب کے ساتھ تو ایک بڑا اتحاد بھی ہے؟یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب میں نومبر میں قائم ہونے والی داعش کی اس شاخ نے کسی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ٹوئٹر پر تنظیم کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے ایک خود کش حملہ آور نے سعودی عرب میں واقعہ شیعہ مسجد پر خود کش حملہ کیا۔ بیان کے ساتھ خودکش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔دولتِ اسلامیہ ماضی میں سعودی عرب میں مقیم شیعوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے چکی ہیاس سے قبل دہشت گرد تنظیم نے جمعے کو ہی سعودی عرب کے ہمسایہ ملک یمن میں بھی شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر بم حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس واقعے میں درجن بھر افراد زخمی ہوئے تھے۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں پر حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب سعودی عرب نے ہمسایہ ملک یمن میں فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے جبکہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔قطیف کی شیعہ آبادی سعودی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کرتی ہے اور حکومت کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے بھی ہو چکے ہیں۔2011 ء میں شیعہ آبادی نے حکومت مخالف احتجاج شروع کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں رائج بادشاہت ختم کر کے وہاں جمہوری اصلاحات نافذ کی جائیں۔اس احتجاج میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے اور مرنے والوں کی اکثریت مقامی افراد کی تھی جو پولیس کی جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے اس کے علاوہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور کئی افراد کو بغاوت اور فسادات کرنے کے الزام میں موت کی سزا بھی سنائی گئی۔سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ یمن پر جارحیت کر رہا ہے جبکہ جنوبی یمن میں القاعدہ بہت مضبوط ہے،یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو داعش کے ذریعے خاموش کرائے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔۔سعودی عرب میں اب نہ رکنے والے خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔سعودی شاہی خاندان القادعہ اور داعش کی کارروائیوں کو یمن کے کھاتے میں ڈال کر کسی بڑی جارحیت کی بنیاد ڈال چکا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں