کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
ہم کتنے ظالم ہیں ہم نے محبت کو نفرت سے بدل دیا ہے اپنے دلوں سے پیار محبت اور احساس نکال کر اس میں حسد‘کینہ اور خود غرضی بھر دی ہے۔ہم بھول چکے ہیں کہ یہ دنیا تو ایک سرائے ہے ہماری اصل زندگی یہ نہیں ہے بلکہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔زندگی کی داستان بھی کتنی عجیب ہے جو کہیں احساسات کا آئینہ ہے تو کہیں حادثات کا مجموعہ‘ کسی کو سنوارنا کسی کو بکھرنا اس زندگی کا مشغلہ ہے یوں کہ کہیں گلش کہیں ویرانہ اس کا مزاج ٹھہرا۔زندگی کو برتنے والا یہ انسان زندگی سے کہیں زیادہ عجیب فطرت کا مالک ہے جو کہیں ہوشرباء حسن کے طلسم کدوں میں قید ہے تو کہیں بیانوں کی سرگوشیوں میں گم انہی تجربات احساسات اور حادثات کے زیر اثر اس کی شخصیت کی تعمیر تخریب کے مراحل سے گزرتے ہوئے سنوراتی اور بکھراتی ہے۔
کبھی کسی کی محبت کی شبنمی پھوار اس کے دل میں گل و گلزار کھلاتی ہے تو کہیں نفرت کی شہریلی آگ میں وہ خود بھسم ہوکر بھی پشیمان نہیں ہوتا۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بیول سے ایک افسوسناک خبر دیکھنے کو ملی کہ ایک غیر مقامی شخص کے وفات پر اس کی مقامی قبرستان میں تدفین پر اعتراض کیا گیا اور حیران کن طور پر اعتراض کرنے والے شخص بارے بتایا گیا کہ وہ خود بھی غیر مقامی ہے جو یہاں سیٹل ہوچکا ہے۔کسی بھی تحریر میں اعتراض کر نے والے شخص کا نام اور شناخت ظاہر نہیں کی گئی سو مجھے علم نہیں کہ وہ کونسی معتبر ہستی تھی جس کے مرنے والے غریب غیر مقامی شخص کی مقامی قبرستان میں تدفین پر اعتراضات تھے۔خبر کے مطابق اعتراض کرنے والا شخص نہ تو قبرستان کے لیے وقف اس زمین کا مالک ہے نہ اس زمین کو قبرستان کے لیے وقف کروانے میں کوئی کردار۔دلوں میں کینہ اور عداوت براجمان ہو تو رائی کو پہاڑ بننے میں دیر نہیں لگتی۔جو لوگ جھوٹی انا کا پرچار کرتے ہیں۔
دراصل انسانیت کا بیوپاری کرتے ہیں اور بلا آخر خود کو عقل کل۔سمجھنے والے بے وقوفی کا نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔معاملہ انتہائی گھمبیر ہے کہ میڈیا میں معاملے کو واضع انداز میں پیش نہیں کیا کیا کہیں مزکورہ شخص کی جانب سے میت دفنانے سے روکنے اور کہیں میت دفنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی تحریریں پڑھنے کوملیں۔ سچ ابہام کے پردوں میں چھپ گیا اگر میت دفنانے سے روکنے کی خبر میں صداقت ہے تو یہ مقامی لوگوں کے لیے باعث شرم ہے کہ یہاں سیٹل ایک غیر مقامی شخص ہمارے قبرستانوں میں میت دفن کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے صادر کرے۔
معزیزین علاقہ کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اس افسوسناک واقعہ کے بعد برادر چوہدری طاہر محمود خادم جامع مسجد قادر آباد سموٹ نے اپنے حلقہ احباب سے مشاورت کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا بیول اور گرد ونواح کے علاقوں سے خدا نہ کرے کسی کو ایسی سچویشن کا سامنا ہو تو وہ قبر کی جگہ کے لیے ان سے رابطہ کرسکتا ہے ان کا کہنا ہے کہ قادر آباد بیول سموٹ روڑ پر ان کے کچھ درد دل رکھنے والے دوستوں نے ملکر نزد کوٹھی حکیم اصغر قبرستان کے لیے دوکیناک زمین وقف کی ہے یہ کام اپنے انہوں نے اپنے نام کے کیے نہیں بلکہ خالصتاً اپنے رب کی رضا کے لیے کیا ہے چوہدری طاہر محمود نے قبر کی لحد کے لیے پتھر کے سلیب(پڑیاں) فراہمی کا اعلان بھی کیا نام ظاہر نہ کرنے والے یہ۔لوگ یقیناً لائق تحسین ہیں ایک جانب کچھ گمنام افراد ہرخاص وعام کے لیے قبرستان کے لیے اپنی زمینیں وقف کررہے ہیں تو دوسری جانب قبرستان کے لیے کسی اور کی عطیہ کردہ زمین میں میت دفنانے پر اعتراض کرنے والے چاچا خوامخواہ بھی موجود ہیں۔یہ دونوں کردار ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔