خوشی اس احساس کا نام ہے جو آپ کو منفی تفکرات سے آزاد کرکے ہشاش بشاش بنا دیتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ احساس بندہ حاصل کیسے کریں؟
کیا اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت ہے؟ کیا اس کو بازار میں کسی دکان سے خریدا جا سکتا ہے؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔
حمزہ اور علی دو دہائیوں سے دوست ہیں۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے خوشی کو تلاش کرنے کے مختلف طریقوں کو ڈسکس کر رہے تھے۔
علی کو ہمیشہ ہشاش بشاش اور کامیاب دیکھ کر حمزہ نے مختصر سوال کیا۔۔۔یار علی آپ تفکرات کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟
بس مجھے کوئی دوائی بتا دیے جو کہ میرے ڈیپرشن اور افسردگی کو ختم کر سکے۔
علی نے قہقہہ لگایا۔۔۔کہنے لگا خوشی کو آپ نے خود ناراض کیا ہوا ہے۔ گفتگو کو سنجیدگی دیتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔کیا ہم اللہ اور رسول کے طریقوں کو اپنانے ہیں؟
کیا ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتے ہیں؟
حلال اور حرام کا تمیز کئے بغیر مال کمانے کا سوچتے ہیں۔ 24 گھنٹے بس یہی سوچتے ہیں کہ فلاں کو اس طرح زیر کرنا ہے اور فلاں کو اس طرح۔
حمزہ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے ارد گرد کتنے لوگ بھوک کی وجہ سے مرے ہیں؟ یقین جانیں کہ میں نے ایسا کوئی نہیں دیکھا لیکن ہزاروں لوگوں کو دیکھا ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر دیکھتا ہوں کہ منفی اور غلط رویوں کی وجہ سے ہر دوسرا بندہ روحانی طور پر مرا ہوا ہے۔ اپنی رویوں کی وجہ سے وہ احساس ہی مار دیتے ہیں جو آپ کو خوش رکھے جو آپ کو ہشاش بشاش رکھے۔
دیکھ حمزہ اللہ تعالٰی نے دن رات کے معاملات کو انسان کے سامنے الگ الگ رکھے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان معاملات کو وقت کے حساب سے انجام ہی نہیں دیتے۔

مضمون نگار بنیادی طور فارمیسسٹ ہیں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈائریکٹر ہیں سائنس اور اصلاح معاشرہ کے لیے لکھتے ہیں
نبی ﷺ اپنے دن کا آغاز اللہ کی یاد سے کرتے ، اور وہ اللہ کی یاد کے ساتھ ہی اپنے دن کا اختتام کرتے تھے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جلدی سونے کی عادت ہو اور وقت پر نماز فجر کے لیے اٹھا جائے۔ سائنسی اعتبار سے بھی یہ ایک صحتمند عادت ہے۔
آٹھ کے بندہ اللہ تعالٰی کا شکریہ ادا کرے جیسا حضور نبی کریم نے فرمایا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ عَافَانِيْ فِيْ جَسَدِيْ ، وَرَدَّ عَليَّ رُوْحِيْ ، وَأَذِنَ لِييْ بِذِكْرِهِ
تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جنہوں نے مجھے اپنے جسم میں بھلائی عطا کی ، اور میری جان کو میرے پاس لوٹایا اور مجھے اس کو (اللہ) کو یاد رکھنے کی اجازت دی۔
اب آپ یہ سوچو کہ یہ میرا آخری دن ہے۔ روزگار پر جاتے ہوئے سوچنا کہ کسی کا حق تلفی نہیں کرونگا اور اپنے بچوں کو حرام کی روزی کما کر نہیں کھلانا۔ آپ کے سامنے کتنے والدین ہیں جو حرام کما کر بچوں کے لئیے جمع کیا اور آج قبر میں جا کر اپنے اعمال کا حساب خود دے رہے ہیں جبکہ اس مال پر بچے مزے لیتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے کہا ، “جو بھی آپ کے درمیان محفوظ بیدار ہوتا ہے ، اس کا جسم صحتمند رہا ، اور اس کے پاس اس دن کا کھانا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے اسے پوری دنیا دی گئی ہے” (ترمذی)۔
حمزہ بھائی مختصرا آپ نے خوش رہنا ہے تو صبح سے شام تک ہر وہ کام کرے جس کا اللہ اور رسول اجازت دے۔ اللہ تعالٰی کے حقوق اپنی جگہ اور انسان کے حقوق اپنی جگہ۔ کسی کے احساسات کو نہیں مارنا اور اپنے احساسات کو اس لیول پر زندہ رکھنا جو آپ کو ہشاش بشاش رکھ سکے۔
وَمَن يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِيْنٌ۔
“جو کوئی بھی اللہ تعالٰی کی یاد سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ، ہم اسے ایک شیطان تفویض کرتے ہیں جو اس کے لئے اس کا ساتھی ہے (43:36)”۔