گزشتہ دنوں ایک تحریر نظروں سے گزر ی جس کا متن کچھ یوں تھا ۔بھیڑیوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی دو بکریوں کے حقوق مارے جا رہے ہیں انہیں گھروں میں قید کر رکھا گیا ہے ایک بکری نے جب یہ آواز سنی تو دوسری بکریوں سے کہا کہ سنو سنو ہمارے حق میں جلوس نکالے جا رہے ہیں چلو ہم بھی نکلتے ہیں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں ایک بوڑھی بکری بولی بیٹی ہوش کے ناخن لو یہ بھیڑئے ہمارے دشمن ہیں ان کی باتوں میں مت آؤ۔مگر نوجوان بکریوں نے اس کی بات نہ مانی کہ جی آپ کا زمانہ اور تھا یہ جدید دور ہے اب کوئی کسی کے حقوق نہیں چھین سکتا یہ بھیڑئے ہمارے دشمن کیسے یہ تو ہمارے حقوق کی بات کر رہے ہیں۔بوڑھی بکری سن کر بولی بیٹا یہ تمہیں برباد کرنا چاہتے ہیں ابھی تم محفوظ ہو اگر ان کی باتوں میں آگئی تو یہ تمہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔بوڑھی بکری کی یہ بات سن کر جوان بکری غصے میں آگئی اور کہنے لگی کہ اماں تم تو بوڑھی ہوچکی اب ہمیں ہماری زندگی جینے دو تمہیں کیا پتہ آزادی کیا ہوتی ہے باہر خوبصورت کھیت ہونگے ہرے بھرے باغ ہونگے ہر طرف ہریالی ہوگی خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی تم اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو اب ہم مزید یہ قید برداشت نہیں کرسکتیں یہ کہ کر سب آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگیں اور بھوک ہڑتال کردی ریوڑ کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مجبورا انہیں کھول کر آزاد کردیا بکریاں بہت خوش ہوئیں اور نعرے لگاتی چھلانگیں مارتی جنگل کی طرف نکل بھاگیں ۔۔مگر یہ کیا؟؟؟؟ بھیڑئیوں نے تو ان پر حملہ کردیا اور معصوم بکریوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔۔
یہ تحریر پڑھنے کے بعد یہ خیال ذہن میں آیا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ آج عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے درحقیقت عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہ رہے ہیں یہ ان معصوموں کے خون کے پیاسے ہیں انہیں عورتوں کے حقوق کی نہیں اپنی غلیظ پیاس کی فکر ہے کاش کہ کوئی سمجھے۔کاش ہم اس قابل ہو جائیں کہ اپنی ماؤؤں ‘ بہنوں بیٹیوں کو یہ بات سمجھا سکیں کہ پردہ کرنا جہالت کی علامت نہیں ہے ۔اور پردہ اتار کر باہر نکلنا ماڈرنزم نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو حکم اسلام نے دیا ہے۔ ہم عورت کو غلام بنا کر رکھنے کی بات نہیں کرتے نہ ہی اس کے حق میں بلکہ ہر عورت کو اسلام نے کچھ حقوق دیے ہیں اور ساتھ ہی کچھ باتوں سے روکا بھی ہے اور اسے ہمارے لیے ماں‘ بہن ‘ بیوی اور بیٹی بنایا ہے۔ ضرورت کے بغیر عورت کو گھر کی چاردیواری سے باہر جانے سے منع کیا گیا ہے تو اس کے پیچھے بھی تو را ز ہے او ر ساتھ ہی ضرورت کی صورت میں بھی نکلنے کی شرط ہے کہ پردہ کر کے نکلے تاکہ اس پر نامحرم کی نظر نہ پڑ سکے۔اگر غور کریں توخانہ کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کا گھر ہے اس کی پہچان ہوسکے کہ یہ کوئی عام مکان یا عمارت نہیں بلکہ اللہ کا گھر ہے ۔اسی طرح قرآن پاک پر غلاف چڑھا کر ہم رکھتے ہیں کہ اس کی پہچان ہوسکے اسکا احترام کیا جائے کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی مقد س کتاب ہے ایسے ہی عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے کہ اس کی پہچان ہو سکے کہ یہ کوئی عام عورت نہیں بلکہ مسلمانوں کی عورت ہے یہ اس لیے پردہ کر کے باہر نکلی ہے اس کے دین نے اسے اس بات کی ترغیب دی ہے تاکہ یہ گندی نظروں سے محفوظ رہ سکے ۔ لیکن اللہ معاف کرے آج کے دور میں آزادی کے نام پر ہم نے بے حیائی کے ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بل پاس کیا گیا جس میں شوہر بیوی پر تشدد کرے گا تو اسے جیل ہوجائے گی اور کڑی سے کڑی سزائیں مقر ر کی گئی ہے ۔اس قانون کے منظور ہوتے ہی آئے روز اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ ایک اور عورت کو تحفظ نسواں بل کی وجہ سے شوہر نے طلاق دے دی۔ جبکہ اس بل کی منظوری سے پہلے تو اگر میاں بیوی میں کچھ اختلافات ہو بھی جائیں تو برادری یاخاندان کے بڑے افراد بیٹھ کر صلح صفائی کروا دیتے تھے مگر اب اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی عورت تھانے پہنچ جاتے تھانے والے شوہر کو اٹھا کر لے جاتے اور شوہر پھر اپنی انا اور ضد میں بیوی کو طلاق دے دیتا ہے یوں صلح صفائی والا چکر ہی ختم ۔ہماری حکومت کو اللہ ہدایت دے یہ حکمران کہتے کہ ہم اس ملک کو یورپین ممالک کی طرح بنا ئیں گے۔ اور اگر دیکھا جائے وہ باقی کاموں میںیورپین ملکوں کے برابر ہوئے ہوں یا نہ ہوں پر بے حیائی اور بے پردگی میں شائد نمبر لے گئے ہیں ۔ ارے ہم تو مسلمان ہیں اور قائد اعظم نے انگریزوں سے یہ ملک یہ کہہ کر لیا تھا کہ ہم ایک الگ اسلامی مملکت کا اصول چاہتے ہیں جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔لیکن آج کے ہمارے حکمران ہمیں دوبارہ اسی انگریز کا غلام بنانے پے تلے ۔۔انہی جیسا بنانے کے عزم کیے جاتے ہیں ۔
ہم اس قانون کو مکمل طور پر غلط بھی نہیں کہتے لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ مظالم جن پسماندہ علاقے کی عورتوں پر کیے جاتے ہیں ان علاقوں کی عورتیں یا تو اس قابل ہوتی نہیں کہ پولیس تک پہنچ پائیں یا پھر اگر وہ پہنچ بھی جائیں تو ایسے علاقوں میں ہماری پولیس بھی ان بڑے لوگوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے ۔ اور دوسری طرف ترقی پذیر علاقوں کی عورتیں جو کہ مردوں کہ شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں وہ اس قانون کو غلط استعمال بھی کرسکتی ہیں ۔ اور شوہر کو اپنا تابع کرنے اور بات بات پے اس قانو ن کی دھمکی دیتے ہوئے بالاآخر اپنا گھر اجاڑ بیٹھتی ہیں ۔اگر حکومت نے یہ قانون بنایا ہے تو اس بات کو بھی ممکن بنایا جائے کہ اس کا کسی صورت غلط استعمال نہ ہوسکے ۔
تو ہم بات کر رہے تھے آزادی کی ۔ مانا کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔لیکن جو لوگ عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں ہمیں ان کے حوالے سے ضرور سوچنا ہوگا۔کہیں وہ ان بھیڑیوں کی طرح تو نہیں جو بکریوں کی آزادی کی بات کر رہے تھے صرف اس لیے کیونکہ کہ وہ مالک کے پاس تھی اور وہ ان کا شکار نہیں کر پا رہے تھے اور جیسے ہی وہ آزاد ہوئی اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔ تو ہمیں بھی اپنی ماؤؤں ‘ بہنوں اور بیٹیوں کو ان بھیڑیوں سے بچانا ہوگا ۔ اللہ سب کی عزتوں کو محفوظ فرمائے ۔ امین{jcomments on}
121