ایک خراسانی الاصل ترک قبیلہ ترکان غز سیلمان خان کی سرداری میں ہجرت کر کے آر مینا میں آباد ہوا سلجوقی سلطنت کے حکمران علاء الدین کیقباد پر اس کے پائیہ تخت قونیہ میں 621ہجری میں چنگیز خان نے فوج کشی کی سیلمان خان نے اپنے جانباز بیٹے ارطغرل کی سپہ سالاری میں چار سو چوالیس جنگجوؤں کو مدد کیلئے بھیجا ارطغرل نے تاتاریوں کو عبرتناک شکست دی اس پر خوش ہو کر سلجوقی سلطان نے ارطغرل کو انتہائی زرخیز علاقہ سفوت جاگیر میں دیا علاء الدین کیقباد کی وفات کے بعد اسکے بیٹے غیاث الدین کی خر و سلجوقی 634ہجری میں تخت نشین ہوا 687ہجری میں ارطغرل کے گھر ایک لڑکا تولد ہوا جس کا نام عثمان خان رکھا گیا تاتاریوں کے حملے میں غیاث الدین جب مقتول ہو گیا تو عثمان خان 1299ء میں قونئیہ پر مسند نشین ہو گیا اور یہیں سے سلطنت عثمانیہ کے نام سے ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد پڑ گئی اور اسرائیل بن سلجوق کی اولاد کی جو سلطنت 470 ہجری میں قائم کی گئی تھی اس کا چرا غ گل ہو گیا خلافت راشدہ،خلافت ِامویہ اور خلافت ِعباسیہ کے بعد اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت ِ عثمانیہ تھی جو تقریباََ دو کروڑمربع کلو میٹر پر محیط تھی سلطنت عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جسکے حکمران ترک تھے اپنے عروج کے زمانے میں یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر علاقہ اس کے زیرنگین تھا اس عظیم سلطنت کی سرحد یں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور کریمیا موجودہ یوکرین سے جنوب میں سوڈان صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں مالدووا، ٹرانسلوا نیا اورو لا چیا کے با جگز ار علاقوں کے علاوہ اس کے 29صوبے تھے عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان مرد اوّل نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور ساتویں عثمانی سلطان، محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے گیا رہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کے کے حدیث رسول اللہؐمیں فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے وارد ہونے والی بشارت کا مصداق بنے سلطنت عثمانیہ کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا تھا دارالسطنت قسطنطنیہ یعنی استنبول تھا مصر‘ار دن عراق شام اور حجاز مقدس کے علاہ اکثر عربی علاقے خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے فلسطین بھی اسی کی ریاست تھی برطانوی استعماروں اور صہونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام، یہودیوں کی آباد کاری اور مسجد اقصیٰ کی جگہ، سیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے عالمی پلان تیار کیا سلطنت عثمانیہ باہمی اختلافات، غیر ملکی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ، مالی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کے رواج، درباری غلام گردشوں اور سازشیوں کی وجہ سے اندرونی طور پر کھو کھلا اور مالی طور پر خستہ حال ہو چکی تھی صہونیوں کے وفد سلطان عبدالحمید کے پاس مختلف بہانوں سے مختلف اوقات میں تین جار آیا اور فلسطین میں آباد ہونے اور تعلیمی ادارے کھولنے اور آخری ملاقات میں دو گنی چوگنی قیمت کے عوض فلسطین کی اراض خرید نے یا سارا ملکی قرضہ اُتارنے کیلئے مہینوں کی رقم کی پیش کش کی لیکن سلطان عبدالحمید جرأت جمیت، غیرت اسلامی دوراندیشی کے سبب ان کے یہودی آباد کاری جیسے مکر و ہ عالمی صیہونی عزائم سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اسکی اجازت نہ دی اورانکے زمانے میں یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ ہو سکی جس کے بعد سے ہی ان کی خلافت کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی جانے لگی اور عوام کو خلافت کیخلاف اکسانے کی سازشیں کی جانے لگیں صیہونیوں نے مختلف عرب گروپوں میں عصبیت ابھارنے کیلئے نجد پر صدیوں سے حکمرانی کرنیوالے آل سعود اور ترکوں کی طرف سے متعین کردہ مکہ کا والی حسین بن علی یعنی شریف مکہ کو سلاطین عثمانی سے علیحدگی اور بغاوت پر اکسایا اور اس کی افواج کو حجاز سے نکال باہر کرنے کے عوض جحاز کے امیر المومنین بننے کا خواب دکھایا گیا جبکہ آل سعود کو نجد کے علاوہ دیگر علاقوں پر حکومت کی لالچ دی گئی تھی شریف مکہ نے 1817ء میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی جب دونوں گروپوں کی بغاوت سے عرب دنیا خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے باہر ہو گئی تو اب برطانیہ نے 1824میں سعود کے بیٹے عبدالعزیز کو نجد کے ساتھ حجاز کا علاقہ دے دیا اور سعودی حکومت قائم ہو گئی اور شریف مکہ کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن پر متمکن کر دیا گیا خلافت عثمانیہ کے ڈوبتے سورج کے تحفظ کیلئے علماء دیو بند نے ہندوستان میں بے مثال سعی کی اور ہندوستان میں تحریک چلائی گئی نجدیوں کی حکومت کی تائید سلنیوں کی طرف سے ہوئی جبکہ احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کیخلاف شریف مکہ کے فتویٰ پر دستخط کئے اور تائید کی یکم نومبر 1922 کو مصطفی کمال پاشا نے استعماری طاقتوں کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی قرار داد منظور کی اس وقت کے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کو اٹلی کی طرف ملک بدر کر دیا گیا اْن کے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری و علاقی عثمانی خلیفہ بنایا گیا مگر تین مارچ 1924کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر اسلام دشمنی اور مغربی پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتا ترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کر لیا سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی اور یوں دنیا ئے اسلام رحمت عظیم خلافت اسلامیہ سے محروم ہوگئی اسلامی شریعت کو معطل کر کے سر زمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک کو اپنا آئین قانون قومیت اور جھنڈا تھمانے کے ساتھ اْمت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا اسلام کے عاد لانہ نظام معیشت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے اور لادینیت واشتراکیت کو جمہوریت کے حسین لبادہ میں پیش کر دیا گیا سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے فلسطینی عوام نے اس لالچ میں اپنی زمینیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے باوجود محض دگنی قیمت کے لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ مادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کراسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ اْن کا اصل پروگرام ہے اس لئے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنیوالے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہوگئے حتی کہ 1945میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے اْن کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دیدی جسکے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالے کر دیا۔
525