303

حاجی کرم داد انسانیت کا سچاخادم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضہ اللہ عنہا سے اپنی کیفیت بیان فرمائی

تو امت کی ماں نے فرمایا اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضائع نہیں کرے کیونکہ آپ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔کسی غریب اور محتاج کو ہاتھ پھیلانے سے پہلے اس کی مدد کرنا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل سنت ہے آج میں ایک ایسے ہی سچے کردار کا ذکر کررہا ہوں

۔یہ کردار حاجی کرم داد ہیں۔ اپ 5 اپریل 1937 کو محمد حسین کے گھر میرپور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے والدین بہت ہی غریب اور ان پڑھ بھی تھے حاجی کرم داد تعلیمِ نہیں حاصل کرسکے

اور اپنے والدین کی مدد کرنے کے لئے اپنے چچا حاجی گلاب کے اینٹوں کے بھٹہ پر مزدوری کی اور اللہ کا کرنا ہوا اللہ تعالیٰ ان کی مدد کی وہ 1960 ء کو یوکے انگلینڈ چلے گئے پھر وہ اپنی فیملی کو بھی ساتھ لے گئے اس کے بعد ان کا خاندان بلکے پورا گاؤں منگلاڈیم کی وجہ سے ہجرت کرکے موہڑہ بھٹاںتحصیل راولپنڈی آگیا۔

حاجی کرم داد نے بھی اپنا گھر موہڑہ بٹاں یوسی مغل میں بنا لیا اب ان کی تین نسلیں یوکے میں آباد ہے لیکن حاجی کرم داد اور اس کی بیوی اپنے خاندان کو نہیں بھولی۔حاجی کرمداد اب تک 25 حج کرچکے ہیں

اور تقریباً اپنے خاندان کے 25 لوگوں کو حج کروا چکے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے بہت سارے عمرے کئے ہیں ان کے کردار کی خاص بات وہ ہر سال ایک مہینے کے لیے پاکستان آتے ہیں

اور اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ گزارتے ہیں اور اس سے بڑی بات یہ کہ حاجی کرمداد کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے

وہ ہر سال اپنے خاندان کے کمزور گھرانوں کی تقریباً تیس لاکھ تک مدد کرتے یہ مدد وہ اپنے خاندان کے ایک معزز فرد کے ذریعے بڑی رازداری سے کرتے ہیں۔وہ معزز فرد جو رشتے میں حاجی کرم داد کے بھانجے لگتے ہیں

وہ ایک لسٹ بنا لیتے ہیں پھر حاجی کرم داد کے مشورے سے وہ رقم ان گھرانوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس سال 2024 میں انھوں نے 2670000 اپنے خاندان کے کمزور گھرانوں میں تقسیم کئے ہیں

یہ ان کی مستقل روٹین ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ عمل کررہے ہیں اب تک حاجی کرم داد دو مساجد اپنی مدد آپ کے تحت بنوا چکے ہیں۔پچھلے دنوں حاجی کرمداد پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے

ان سے ایک تفصیلی ملاقات اپنے محترم بھائی چوہدری عبدالخطیب کے دفتر پنڈی پوسٹ میں ہوئی اس موقع پر محترم پروفیسر شاہد جمیل منہاس اور محترم بھائی شہزاد رضا بھی موجودتھے،

میں حاجی کرمداد صاحب سے ان کی زندگی کے حوالے سے پوچھتا رہا یقین جانیے مجھے ان کی زندگی پر رشک آرہا تھا وہ ان پڑھ نہیں بلکہ حاجی کرم داد اعلی تعلیم یافتہ ہیں وہ جانتے ہیں

جنت کا راستہ کون سا ہے اور میں نے جنت میں کس راستے سے جانا ہے۔کاش ہمارے مالداروں کو یہ بات سمجھ جائے تو کوئی رات کو بھوکا نہ سوئے مہنگے ہوٹلوں سے کھانے کھانے کے بجائے ایک گھر کا خرچہ اپنے زمہ لے لیں

۔پیزا کھانے کے بجائے کسی بیوہ کے گھر کا خرچہ اپنے زمہ لے لیں‘ہمارے مالدار اپنے بچے یا بچی کی شادی کرتے ہیں تو شادی ہال میں ایک تقریب کا بل ایک ایک کروڑ دے کر باہر نکلتے ہیں

اگر ان کو کہا جائے ایک غریب کے بچے کی سمسٹر کی فیس ایک لاکھ بیس ہزار ہے اگر آپ دے دیں تو اس غریب کے بچے کی تعلیم ڈسٹرب نہیں ہوگی تو جواب نفی میں ہوگا۔ایک بچے کی فیس پچاس ہزار ہے

اگر آپ ادا کردیں تو اس بچے کا مستقبل بن جائے گا ایک غریب کی بچی کو سلائی مشین لے دیں وہ گھر میں بیٹھ کر اپنے گھر کا نظام چلا سکے تو ہمارے مالدار سوچ میں پڑ جاتے ہیں کسی غریب کا آپریشن ہے اس کی مالی مدد کردیں تو پریشانی سے بچ جائے گا تو جواب میں خاموشی ہوتی ہے آج معاشرے میں بڑھتی ہوئی

تفریق نے معاشرے کو بری طرح تقسیم کردیا ہے ایک طرف ہوٹلوں کے کھانے، بڑی بڑی بیکریوں پر لائنیں مہنگی مہنگی آئسکریمیں، مہنگے مہنگے کھانے، مہندی کے سوٹ مایوں کی رسمیں شادی والے دن کے لیے ایک ایک سوٹ دس دس لاکھ، ولیموں پر کھانوں کی نمائشیں، فوتگی پر کھانے

اور چالیسواں پر کئی طرح کے کھانے، دو دو کروڑ کی گاڑیاں اور جب گاڑی میں پٹرول ڈلوا رہیں وہاں کھڑے ہو چوکیدار سے پوچھ لیں میاں گھر کا نظام کیسے چلاتے ہو میں بیکری سے ڈبل روٹی لینا جاتا ہوں

وہاں خریداروں کا رش ہوتا ہے لیکن جو چوکیدار دروازہ کھولتا اور بند کرتا ہے کوئی اس سے پوچھ لے میاں اپنے گھر کا نظام کیسے چلاتے ہو اپنے بچوں کو کیسے پڑھاتے ہو اپنی نوجوان بیٹیوں کے ہاتھ کیسے پیلے کرو گے کاش کوئی رک کر مسجد کے خادم سے پوچھ لیں

کیسے آپ کے گھر کا نظام چلتا ہے؟ کسی کلاس فور سے پوچھ لیں اپنے گھر کا کیسے نظام چلاتے ہو؟۔ایک سکول کی ہیڈمس میری بیٹی کہنے لگے سر میں نے ایک آیا رکھی اس کے حالات بہت خراب ہیں میں ایک بزرگ ساتھی کی موجودگی میں اس بہن سے حالت پوچھے تو بتانے لگی سر میرے میاں کو فالج ہوگیا ہے

وہ چارپائی پر ہیں ایک پندرہ سالہ بیٹا ایک دوکان پر مزدوری کرتا ہے اس کو 8000 ملتے ہیں کچھ میں مزدوری کرتی ہوں زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتے ہوئے وقت گزار رہیں ان حالات میں ہمارا مالدار طبقہ اپنی عیاشیوں میں مگن ہے

ان حالات میں ہمارے لیے حاجی کرداد کا کردار مشعل راہ ہے وہ ہمارے لئے رول ماڈل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صحت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے آمین ان کے والدین کی مغفرت فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں