قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کے دوران متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا خواب دیکھا تھاجس میں ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لانا تھا جس میں حکومت ایسے افراد پر مشتمل ہو گی جن میں اللہ تعالیٰ کا خوف،حضرت محمدﷺکی سچی محبت اور آخرت کی جوابدہی کا احساس ہوگااور کوئی ایساقانون نہیں بنایا جائے گاجوقرآن و سنت سے متصادم ہو۔‘ عام شہری کو بلا امتیازرنگ نسل زبان مذہب، جان مال اور عزت کا تخفظ ہوگا‘ عام آدمی کو زندگی کی بنیاد ضرورت روٹی کپڑا مکان تعلیم اور علاج کی یکساں سہولیات میسر ہوں گی۔لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جو خواب دیکھے تھے اور جس کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دی گئیں وہ چکنا چور ہو گئے ملک کے بیس کروڑ عوام کو جان مال اور عزت کا تخفظ دینے کی بجائے حکمرانوں نے قومی خزانے سے اربوں روپے ایک مخصوص طبقے کی سکیورٹی پر خرچ کر دئے کروڑوں روپوں کی بم پروف گاڑیاں خریدی گئیں حالا نکہ انہیں یہ پتہ ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے جب یہ وقت آتا ہے تو کوئی حفاظتی تدبیر کام نہیں آتی۔صلاح الدین ایوبی کا قول ہے ،،جو حکمران اپنی حفا ظت میں مگن ہو جاتے ہیں وہ قوم و ملک کی عزت و آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے،،حضرت علیؓ کا فرمان ہے ،،جو شخص موت سے بھاگتا ہے وہ موت کی طرف بھاگتا ہے،، ان کا یہ قول بھی ہے ،،موت میری محبوبہ ہے،،آج کل کے حکمرانوں کی محبوبہ سیکورٹی ہے جبکہ اسی ملک کا ایک عام شہری جب گھر سے نکلتا ہے تو اُسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ بخیرت اپنے گھر واپس لوٹے گا بھی یا نہیں۔حکمران طبقہ قوم کے ما ں باپ کی طرح ، ہوتے ہیں جن کی نظر میں سب اولاد برابر کا درجہ رکھتی ہے بلکہ وہ امیر بیٹیوں کی بجائے غریب بیٹیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران تمام ملکی وسائل میگا پر جیکٹس پر خرچ کر رہے ہیں اور عام آدمی اپنی بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکان تعلیم سستا انصاف اور علاج کی یکساں سہولیات سے محروم ہے تعلیم کی ترقی صرف اخبارات میڈیا پر اشتہارات سے نہیں ہو گی بلکہ دیہات اور دور افتادہ علاقوں میں سکولوں کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا اسا تذہ کی خالی اسامیوں کو پرُ کرنا اور طلباء کی ضروریات کے مطابق عمارتیں بنانا ہوگی اور سائنسی آلات مہیا کرنے ہوں گے اساتذہ کو ان کی کارکردگی کی بنیاد کو ترقی دینی ہوگی دیہی علاقوں میں گورنمنٹ ہسپتال قائم کرنے ہوں گے جن میں عام شہری کو علاج کی مفت سہولت میسر ہو قومی خزانہ کا ایک ایک روپیہ قوم کی امانت ہے جو شخص اس امانت میں خیانت کرے وہ قوم کا مجرم ہوگا جب تک جزااور سزا کے قانون پر سختی سے عمل نہیں ہوگا معاشرہ سدھر نہیں سکتا اسی لئے ہمارے وطن میں کرپشن کا دور دورہ ہے ہمارے حکمرانوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی جوابدہی کا بلکل ہی احساس نہیں ہے وہ اربوں روپے ذاتی عیاشیوں، بے مقصد غیر ملکی دوروں اور سر کاری خرچ پر ذاتی کاروبار کو وسیع کرنے اور میگا پروجیکٹس پر اربوں روپے ضائع کرتے وقت انہیں تھر پار کر چولستان بلوچستان کے غربت زدہ علاقوں اندرون سندھ کے غریب رہایوں ،جنوبی پنجاب اور سرحدی صوبہ کے پس ماندہ اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے شہریوں کا خیا ل نہیں آتاجو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکا ن تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں حکمران اربوں روپے ان کی امداد کا اعلان کرتے ہیں لیکن ان علاقوں کے عوام میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے آخر وہ پیسہ کدھر جاتا ہے ذرا سوچیئے ملک کے عام شہری کو میڑو بس اور میڑو ٹرین کی ضرورت نہیں ،بھوکے کو دو وقت کی روٹی، تن پر کپڑا، رہائش کے لئے چھت بچوں کی تعلیم اور علاج کی سہولتوں کی ضرورت ہے اور یہ شہری کا حق ہے،پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک سے65 فی صد آبادی کا شتکاری کے شعبہ میں وابستہ ہے اگر پاکستان میں جاگیر داری کا خاتمہ کر دیا جاتا اور زمینیں کا شتکاروں میں تقسیم کردی جاتیں تو اس سے زرعی پیداوار میں اضافہ بھی ہوتا اور بے روزگاری بھی دور ہو جاتی ہم زیر کاشت اراضی پر ہاؤ سنگ سکیمیں بنا رہے ہیں جس سے زیر کاشت رقبہ میں خطرناک حد تک کمی ہو رہی ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا میں آئندہ جنگ پانی پر ہوگی انڈیا دریائے سندھ پر بڑے ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر بنانا چاہتا ہے جبکہ ہمارے حکمران کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کو پس پشت ڈال کر قومی غفلت کا مظاہر کر رہے ہیں جس پر کثیررقم قومی خزانے سے خرچ بھی ہو چکی ہے پاکستان کی عوام محب وطن ہے یہا ں کے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ امریکا برطانیہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جاکردن رات محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ کاٹ کرزرمبادلہ کی کثیر رقم پاکستان بھیجتے ہیں جس سے ملکی معیشت میں بہتری آتی ہے جبکہ ہمارے ملک کے جاگیردارصنتکارسرمایہ دار سیاستدان بیورو کریپٹس اپنا سرمایہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع کراتے ہیں اگر یہ لوگ اپنا سرمایہ اپنے ملک میں لاکر زراعت اور صنعتوں میں لگالیں تو اس سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری میں بھی کمی ہوگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک تعلیمی انقلاب بر پا کیا جائے سکولوں اور کالجوں میں یکساں نصاب پڑھا یا جائے اور مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی فیسں کم کی جائیں اور جو سکولوں یا کا لج فیسیں کم نہ کرے اس کو قومی تحویل میں لے لیا جائے پاکستان معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے سونا چاندی پیتل تیل گیس لوہا کوئلہ زمین سے نکالنے اور اسے قابل استعمال بنانے کی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے پاکستان کے ذہین ترین طلباء کو سکالر شپ دے کر ترقی یا فتہ ممالک میں بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں سے ٹیکنالوجی حاصل کر سکیں ایسے افراد کو معقول معاوضہ دے کر اپنے وطن میں بُلا کراِن سے کام لیا جائے جدید تعلیم کے ساتھ افراد کی کردار سازی پر بھی بھر پور توجہ دی جائے ۔{jcomments on}
121