128

تعلیمی اداروں کو قرنطینہ میں تبدیل کیا جا جائے

بابر اورنگزیب چوہدری،پنڈی پوسٹ/دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں کرونا وائرس کی وبا ءپھیل چکی ہے اور اس وباءنے دنیا بھر کے لوگوں کو لاک ڈاون کی وجہ سے انکے گھروں تک محدود کر دیا ہے پاکستان میں بھی لاک ڈاون کو ایک ماہ ہونے کو ہے اور یہ وبا پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں مریض اس کا شکار ہوچکے ہیں حکومت اپنے طور پر اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے پورا ملک ایک ماہ سے لاک ڈاون ہوچکا ہے تو ایسے میں حکومت کو لوگوں کے ساتھ مل کر ایسی صورتحال میں گلی محلہ کی سطح پر سے ایسے اقدام اٹھانے ہونگے جو اس بیماری کی روک تھام میں معاون ثابت ہوسکیں خاص طور پر سب سے پہلے کرونا کو پھیلنے سے روکنا ہے تو ہر یونین کونسل کے دفتر میں یا اس علاقے میں جو بھی بڑی سرکاری عمارت ہو چاہے وہ سکولز ہوں یا کسی اور ادارے کی عمارت ہو یا پھر بیسک ہیلتھ یونٹ ہو اس کو قرنطینہ سنٹر بنا دیا جائے خاص کر شہری علاقوں میں اور سب مل کر ایسے اقدام اٹھائے کہ اگر اس علاقے میں خدانخواستہ کوئی مشتبہ مریض پایا جائے تو اس کو گھر والوں سے اہل محلہ سے الگ اس قائم کردہ سنٹر میں رکھا جاسکے تاکہ وہ مذید وائرس پھیلانے کا سبب نہ بن سکے اگر ایسے مریض کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو بروقت ایمرجنسی اس کو بڑے ہسپتال میں بھیجا جائے نیں تو اس کو مکمل صحت یاب ہونے تک ایسے سنٹر میں رکھا جاسکے اس سے مذید بیماری پھیلنے سے رک سکے گی اور بڑے ہسپتالوں میں بھی بوجھ نہیں پڑے گا دوسرا بڑا مسئلہ راشن کی تقسیم کا ہے جو بہت ضروری ہے کہ جب ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک و افلاس میں مبتلا ہو سب کو کیسے مدد کرنی چاہیے ہر کوئی آج کہتا ہے کہ سب کچھ بند ہونے سے دیہاڑی دار مزدرو پر اثرات پڑ رہے ہیں مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آج دیہاڑی دار اصل میں کون ہیں مزدور کون ہیں جن سے اس لاک ڈاون اور گھروں میں بند رہنے سے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اپنے اردگرد دیکھیں،رکشہ ڈرائیور سے لے کر ڈیلی ویجز کا کام کرنے والے، پرائیویٹ سکولز میں ٹیچرز سے لے کرمختلف پرائیویٹ کمپنیز میں کام کرنے والے، دوکانوں اور ہوٹلز پر کام کرنے والے الغرض سرکاری نوکری کرنے والوں کے علاوہ ہر دوسرا فرد دیہاڑی دار ہی ہے اور اس کو ایسی صورتحال میں گھر کا راشن پورا کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں اور تمام مکاتب فکر کے افراد کو اپنے اختلافات بلائے طاق رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ اگر ملک میں یہی صورتحال رہی تو سب کو راشن کیسے پہنچانا ہے کیونکہ اس لاک ڈاون کے جاری ہونے کے سبب بہت سے لوگوں کے ہاں فاقوں تک کی نوبت آئی ہوئی ہے ایسے میں بہت سے فلاحی ادارے اور مخیر حضرات اپنے طور پر کام کر رہے ہیں تو وہی پر حلقہ این اے 59 کے ایم این اے اور وفاقی وزیر غلام سرور خان نے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے اور اپنے حلقے کی غریب عوام کے لیے ایک کرونا فنڈ قائم کیا جس سے ہر یونین کونسل کے مستحق افراد کی لسٹیں بنائی گئیں اور انکو انکے گھروں میں راشن دیا جا رہا ہے تو وہی پر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مسلم لیگ ن کے رہنما انجنیئر قمر السلام راجہ نے بھی اس سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ انھوں نے بڑی دو عمارتوں کا انتظام کیا ہے جہاں پر مستقبل قریب میں اگر خدانخواستہ مریضوں کی تعداد بڑھتی ہے تو ان مریضوں کو ان عمارتوں میں رکھا جاسکے گا اور انھوں نے اپنے کارکنوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کریں اگر مستقبل میں حالات خراب ہوتے ہیں تو وہ ہر طرح سے حکومت کے ساتھ مل کر انکی معاونت کرنے کو تیار ہیں اور راشن کے لیے بھی اپنے نمائندوں کو متحرک کیا ہے کہ اپنے ارد گرد لوگوں کا خیال رکھیں اسی طرح سے مسلم لیگ ن پی پی 12 کے سابق امیدوار فیصل قیوم ملک اور انکے ساتھی بھی اپنے طور پر بغیر کسی تشہیر کے لوگوں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں اس کے علاوہ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے حاجی امجد محمود چوہدری کی اس سارے معاملے میں خدمات قابل ستائش ہیں انھوں نے اپنے حلقہ کی عوام کو نہ صرف ماسک اور دیگر ادوایات فراہم کی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ راشن بھی وافر مقدار میں تقیسم کر رہے ہیں اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حلقہ این اے 59 میں جس نے سب سے زیادہ دیہاڑی دار مزدوروں کے دکھ کو سمجھا اور ان میں راشن تقسیم کیا تو وہ حاجی امجد محمود ہی ہیں انھوں نے
نہ صرف اپنے صوبائی حلقہ پی پی 13 میں بلکہ این اے 59 کی مخلتف یونین کونسل میں بھی راشن تقسیم کیا ہے اس کے علاوہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اپنے آبائی گاوں میں راشن تقیسم کیا ہے اور یونین کونسلز کے سابق چیئرمین اور وائس چیئرمین کو بھی ہدایت کی ہے کہ اپنے طور پر اپنے اپنے علاقے میں لوگوں کی مدد کریں تحریک انصاف کی مقامی قیادت بھی اس معاملے میں متحرک دکھائی دے رہی ہے جماعت اسلامی کا ادارہ الخدمت فاونڈیشن بھی ہمشیہ کی طرح اس مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش ہے اور مستحق افراد کو راشن،ادویات تقسیم کر رہی ہیں اس مشکل وقت میں جہاں پر فلاحی ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنے طور پر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں تو وہی پر ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کا خیال رکھیں کہ کوئی بھی بچہ یا شخص اس وجہ سے بھوکا نہ سوئے کہ اس کے پاس کھانے کے پیسے نیں ہیں سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی اور مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں