166

ترقیاتی منصوبوں میں محکمانہ کمیشن /عبدالخطیب چوہدری

میڈیارپورٹس کے مطابق ضلع راولپنڈی تحصیل کہوٹہ میں سرکاری منصوبوں پر کا م کرنیوالے ٹھیکیداروں نے محکمہ کے اہلکاروں کی جانب سے کمیشن طلب کرنے پر مختلف منصوبوں پر جاری کام روک دینے کی دھمکی دیتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ان

کاکہناہے محکموں کے اہلکار کسی بھی منصوبہ کے آغاز سے لیکر اس کی تکمیل تک مختلف مرحلوں میں کمیشن وصول کرتے رہتے ہیں اور بعض و اوقات کمیشن کی رقم ٹوٹل رقم کے پچاس فیصدتک چلی جاتی ہے اس کے بعد بھی بلوں کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹھیکیداروں کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے محکموں کے اہلکاروں نے ڈمی اور فرضی فرمیں رجسٹرڈکرارکھی ہیں اور منصوبے بھی ان نام نہاد فرموں کے نام کردیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں کو رسوائی اور ذلت کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوپار ہا ہے کمیشن مافیا کے شکارٹھیکیداروں کے ہاتھوں والے منصوبے بھی چند برسوں کے بعد کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال حکومتی خزانہ کو کروڑوں روپے نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔
بدقستمی سے وطن عزیز میں ہر کام سفارش اور رشوت کی نذر ہوچکا ہے اور رہی سہی کسر محکموں میں موجود کالی بھیڑوں نے کمیشن کی شکل میں پوری کردی ہے قومی او صوبائی حکومتیں شہریو ں کو جدید سہولیات کی فراہمی اور ان کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے ہرسال سالانہ بجٹ میں کھربوں روپے مالیت کے ترقیاتی منصوبے مختص کرتی ہے لیکن منصبوں کے ٹینڈروں کے ساتھ ہی کمیشن مافیابھی متحرک ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی بڑے منصوبہ کا پچاس فیصد رقم کمیشن اور رشوت کی مد میں محکمہ کے اہلکار ہضم کرلیتے ہیں جبکہ ٹھیکیدارجنہوں نے ایک مخصوص کمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے فرم کو رجسٹر ڈ کروایا ہوتا ہے اس نے بھی اپنی ایک محدود حدتک منافع کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ کا آغاز کیا ہوتاہے تو وہ محکمہ کی کرپشن کے پیش نظر ناقص میٹریل کے استعمال کو ہی ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں اور اربوں سے شروع کیے جانیوالے منصوبے چار پانچ سال کے بعد اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں اور یہ کام آہستہ آہستہ خستہ حالی کا شکار ہوجاتے ہیں پنجاب میں بننے والے محکمہ صحت اور تعلیم کی عمارتوں کی خستہ حالی اس کی واضح مثالیں ہیں چند سال قبل بننے والی عمارتیں بوت بنگلہ کی صورتیں پیش کررہی ہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دیکھاجائے تو دیہی علاقوں میں جاری منصوبوں میں زیادہ کرپشن اورکمیشن مافیا حرکت میں نظر آتا ہے یہاں شہریوں کو کام کے معیار اور اس میں استعمال میں ہونیوالے میٹریل کے استعمال کے تناسب کا علم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ناقص اور کم مقدار میں میٹریل استعمال کردیا جاتا ہے شکایات سے بچنے کے لیے محکموں کے اہلکاروں نے اپنے عزیز و اقارب کے نام سے فرضی فرمیں رجسٹرڈ کروائی ہوتی ہیں جن سے اصل اور فیلڈ میں کام کرنیوالے ٹھیکیداروں کی حق تلفی ہوتی ہے جن علاقوں میں میٹریل کی رسائی آسان نہ ہو یا راستے دشوار گزار ہوں وہاں دیگر ٹھیکیداروں کوٹھیکے دینے میں ترجیح دی جاتی ہے پھر ان کے کام کے میعار کوچیک کرتے وقت مختلف حیلے و بہانے کرتے ہوئے ٹرخایاجاتا ہے کام کو فیل کرنے دھمکیاں اور بل میں رکاوٹ بننے کا باعث بن کر ان سے کمیشن اور رشوت طلب کیجاتی ہے جس کی بناء پر ایمانداری سے کام کرنیوالوں کو کمائی کی بجائے جیبوں سے روپے دینے پر پڑجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹھیکیداروں کی ایک بڑی تعداد اس پیشہ سے کنارہ کشی کرلی ہے اگر پنجاب کی سطح پر دیکھا جائے تر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا حلقہ انتخاب روات کلرسیداں چک بیلی سرفہرست آتا ہے جہاں ہر یونین کونسل کی سطح پر کروڑوں روپے کے ترقیاتی منصبوبے دیئے جاتے ہیں۔
لیکن کام کا معیار کمیشن مافیا کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے انہتائی ناقص ہوتا ہے چوہدری نثار علی خان ہر چند ماہ کے بعد حلقہ انتخاب کا دورہ کرتے ہیں لیکن تاحال کبھی بھی ٹی ایم اوز ‘ ڈسٹرکٹ ہائی وے یا صوبائی ہائی وے ‘ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ یا دیگر محکموں کی جانب سے ٹھیکیداروں سے سرعام کمیشن کی رپورٹ نہیں طلب کی کھلی کچہریوں میں صرف وقتی افسران کی سرزنش کی جاتی ہے کہ کام کے معیار کو بہتر بنایا جائے لیکن عملی طور محکموں کو کمیشن سے رکاوٹ ڈالنے کی کبھی بھی کوشش نہ کی گئی نہ ہی ٹھیکیداروں کو واضح طور پر محکموں کو کمیشن دینے سے منع کیا گیا جس کی وجہ سے چند سال قبل کروڑوں روپے سے بننے والی رابطہ سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں چوک پنڈوڑی بھاٹہ روڈ اور کہوٹہ روڈ کو پایہ تکمیل کو پہنچے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا ہے کہ اس میں بڑے بڑے گڑھے بننے کی رپورٹس میڈیا کی زینت بن رہی ہیں چو آخالصہ سکرانہ روڈ کی تعمیر میں سرعام ناقص میٹریل کا استعمال جاری ہے جس کے بارے میں علاقہ کے شہری اور عوامی نمائندے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن محکمہ ہائی وے راولپنڈی کے افسران خاموش تماشائی بنے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں حکومت کو چاہیے کہ عوام کے فلاح وبہبود کیلئے شروع کیے جانیوالے ترقیاتی منصوبوں میں بیورو کریسی کی کرپشن اور کمیشن پر خاصی نظر رکھے عوامی شکایات پر افسران اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے ورنہ شہری ترقی کا دیر پہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے ۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں