پروفیسر محمد حسین‘پنڈی پوسٹ /تئیس مارچ ہماری قومی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے 80سال پہلے اسی روزلاہور کے عظیم الشان جلسے میں مسلمانان ہند نے ایک قرار داد کے ذریعے اپنے لیے ایک الگ وطن ،ایک اسلامی مملکت کے قیام کا عہد کیا تھا قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہونے والے اس تاریخی جلسے میں شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے قرارداد پیش کی جسے دنیا قرارداد پاکستان کے نام سے جانتی ہے دشمن قوتوں نے اسے دیوانے کا خواب قرار دیا مگر بحیرہ عرب سے خلیج بنگال اور طور خم تک ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے والے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اٹھ کھڑے ہوئے اور تقریبا ساڑھے سا ت سال کی قلیل مدت میں اس خواب کو حقیقت کا روپ دلا کر دم لیا چودہ اگست 1947ءکو پاکستان وجو د میں آگیا اور اس قوم نے نئی امیدوں کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغا ز کیا لیکن یہ ملک اپنے قیام سے قبل ہی دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا اور قیام پاکستان کے فورا بعد ہی اس مملک کو ناکام بنانے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا قیام پاکستان کے صرف تئیس برس بعد دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی غداریوں اور نااہلیوں کی طفیل سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آگیا اور پھر اس کے بعد جمہوریت اور آمریت کے سلسلہ وار ڈراموں نے قوم میں اتحاد کا فقدان پیدا کر دیا آج صورتحال یہ ہے کہ ملک بدترین سیاسی انتشار اور بے چینی کا شکار ہے دہشت گردی اور لاقانونیت قتل و غارت اغواء‘ ڈکیتی ‘کرپشن ‘ اقربا پروری اور دوست نوازی سمیت ننھے ننھے بچوں اور بچیوں کے ریپ اور قتل کی بدولت ہر طرف خوف وہراس کی فضا ہے ان مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر بھی تاریخ پاکستان کا ایک الگ باب ہے جو بھارت کی ظالمانہ کارروائیوں اور ناجائز قبضے کی وجہ سے آج تک حل طلب ہے کشمیر ی عوام گزشتہ تہتر برس سے حق خودارادیت اور الحاق پاکستان کے لیے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا ایجنڈا نا مکمل ہے اور پاکستانی عوام سیاسی سفارتی اور اخلاقی طور پر کشمیری عوام کی مدد اور استقانت جاری رکھے ہوئے ہیں تاآنکہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور 23مارچ 1940ءکو منظور ہونے والی قرار داد پاکستان کی روشنی میں تکمیل پاکستان عمل میں آئے آج ہمیں جائزہ لینا ہو گا کہ ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اپنے جنت نظیر ملک کی دھجیاں بکھیر دیں آج 23مارچ کا دن ہے ایک موقع اور ہمیں مل رہا ہے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہم سب کو تجدید عہد کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو اپنے کردار کی سچائی ‘پوری لگن خلوص دیانتداری اور آپس کی محبت اور اخوت سے ایک اسلامی فلاحی خوشحال ‘امن پسند اور اور غیروں کی غلامی سے آزاد ریاست اور مملکت بنائیں گے اور اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے اور اس کو ہر شر و فساد اور فتنہ پروری ،قتل و غارت ،دہشتگردی اور کرپشن جیسے ناسور سے پاک کریں گے اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 23مارچ کے تاریخی دن نے مسلمانوں کی قسمت بدل دی تھی اس دن کا سورج ان کے لیے حیات نو کی نوید لے کر ابھرا تھا اور انھیں زندہ اور عزت دار قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل بنایا تھا اس دن کے پس پردہ انسانی عظمت و ہمت کی لازوال داستان اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ کون و مکاں کے افق پر تاحال تاباں اور درخشاں ہے اور یہ تاریخ انسانی کا عظیم اور سنہری باب ہے جس میں ہمارے آباو اجداد کے پختہ ارادوں اور جدوجہد کی تکمیل اور قربانیوں کی تفصیل رقم ہے لہذا نسل نو کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آزادی کا حصول کتنی جانی اور مالی قربانیوں کے بعدممکن ہوا اور اس کے لیے کتنی خون کی ندیاں بہائی گئیں کتنی عزتوں کو پامال کیا گیا کتنے لاکھ پروانوں کے خون سے پاکستان کی شمع روشن ہوئی جس کے اجالے میں آج ہم سب اپنی منزل اورنئے آفاق کی جانب گامزن ہیں پاکستان معرض و جود میں تو آگیا مگر اس کے حصول کے مقاصد کی تکمیل ابھی تک نہیں ہوئی جس کی تکمیل کے لیے پھر سے قائد اعظم جیسے مسیحا اور تحریک آزادی جیسے بھرپور انقلاب اور قربانیوں کی ضرورت ہے لہذا آج ہماری باشعور نوجوان نسل اور عوام کو پہنچاننا ہو گا کہ وہ حقیقی مسیحا اور انقلاب کا داعی کون ہے جو ہمیں اپنی حقیقی منزل اور نظریے کی تکمیل تک پہنچا سکے جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیاتھا لہذا آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے سچے دین ‘ اسلام کو عمل شکل میں نافذ کرنے اور 23مارچ کی قرار داد حصول پاکستان کو سمجھ کر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا بھرپورکردار ادا کرنا ہو گا اور جانی و مالی اور وقت کی قربانی دے کر ایثار وقربانی کی لازوال داستان رقم کرنا ہوگی
189