1857ء کی جنگ آزادی کے تقریبا نوے برس بعد 14اگست1947کو وطن عزیز پاکستان قائم ہوا اس کو حاصل کرنے میں لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں،ہندو انتہا پسندوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت مختلف قافلوں میں پاک وطن آنیوالے مسلمانوں کو بڑی بیددردی سے شہید کیا
بزرگوں بچوں اور خواتین کوو بھی نہیں بخشا گیا‘بلکہ افسوسناک سانحات بھی پیش آئے کہ سینکڑوں کی تعداد میں جوان عورتوں اور کم سن بچیوں کو اغوا کیا گیا۔ آج ستر سال گزرنے کے باوجود لوگ اپنی گم شدہ خواتین کو تلاش کر رہے ہیں۔ ان کی تلاش میں ہزاروں لوگ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں
اور جو زندہ ہیں، ان پر ہر روز موت واقع ہوتی ہے۔ یہ کہنا اور سننا آسان ہے کہ فلاں شخص کی بیٹی یا بہن کو اغوا کر لیا گیا۔ لیکن عملی طور پر یہ سانحات پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندانوں کے ساتھ پیش آئے اور اغواکندگان کفار تھے ایسے میں ان کے لواحقین پر کیا گزری ہوگی۔ اس بارے میں صرف سوچاہیجا سکتا ہے۔ اس دکھ درد کو محسو س کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے تلواروں کرپانوں پر برچھیوں سلاخوں پر مسلمان بچوں کو اچھال کر شہید کیا،مسلمانوں کے گھروں باغات کو آگ لگا دی گئی۔
یہاں تک کہ بستیوں کی بستیاں اور بازار راکھ میں تبدیل کر دے گئے۔ ان کی جائیدادوں پر قبضہ جما لیا گیا۔ جو قافلے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے ان کو جگہ جگہ لوٹا گیا اور گاڑیوں کو آگ لگا دی گی۔ لا تعداد لوگ زندہ جل مرے لا تعداد خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ ان کی عزتوں کو سر عام نیلام کیا گیا۔ ان کو برہنہ اور نیم برہنہ کر کے بازاروں میں نچایا گیا۔ ان کے ساتھ ایسے ایسے سلوک روا رکھے گئے۔ کہ اس داستان کم کو سن پا پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آّج پاکستان اور بھارت اپنی آزادی کی سترویں سالگرہ منا رہے ہیں،
دونوں ممالک میں سرکاری طورپر بڑی بڑی تقریبات منعقد ہورہی ہیں پاکستان میں سبز ہلالی پرچم جگہ جگہ لہرا رہے ہیں بھارت میں بھی جشن منایا جارہا ہے بھارتی فورسز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ترنگا جھنڈیاں تقسیم کر رہے ہیں اور انہیں گھروں گاڑیوں اور دکانوں پر لہرانے کے احکامات دیئے جارہے ہیں اگست کی آمد پر پوری وادی کشمیرمیں کرفیو نافذ کر دیا جاتا ہے 15اگست کو سب سے بڑی تقریب بخشی سٹیدیم میں ہوتی ہے اس سٹیڈیم کے گردو نواح کی بستیوں سے لوگ بھارتی فورسز کے مظالم کے باعث ہجرت کرجاتے ہیں لوگوں کے رہائشی گھروں پر بھارتی فوج چوکیاں قائم کرتی ہے سڑکوں پر جگہ جگہ کریک داؤن ہوتے ہیں لوگوں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے رہا ہونے والوں کو نئے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے
یہاں تک کہ ہسپتالوں کا بھی محاصرہ کر لیا جاتا ہے اور ہسپتالوں پر بھی بھارتی فوج بنکر بنا کر مریضوں کو ہراساں کرتی ہے اور ہی حال پوری مقبوضہ وادی میں ہوتا ہے بھارت اپنا یوم آزادی بڑے دھوم دھام سے کشمیر یوں کو گھروں میں بند کرکے اور انکی تمام آزادیاں چھین کر مناتا ہے
آزادی منانے کیلئے بھارت ہزاروں کشمیریوں کو فوجی کیمپوں میں حاضر ہونے ‘نظر بند کرنے اور غلامی کا تصور دلاتا ہے اس دن شمالی بھات میں آزادی پسند لوگ یوم سیاہ مناتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی یوم سیاہ کے دوران عام ہڑتا ل ہوتی ہے اور سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں عملی طور پر وادی میں سول کرفیو نافذ رہتا ہے 14اگست کو لوگ عقیدت و احترام میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں مجاہدین پاکستانی پرچم کو سلامی دیتے ہیں بازاروں اور رہائشی علاقوں میں بھارتی فورسز کی موجودگی اور جارحیت کے باوجود لوگ چراغاں کرتے ہیں
اور دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی طرح کشمیریوں کو بھی آزادی کی نعمت سے مالا مال کرے پاکستان کیلئے بزرگوں نے جن قربانیوں کو پیش کیا انکی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بنا تاریخ میں ایک طرف انہیں آزاد وطن میں رہنے کی خوشی تھی اور دوسری طرف وہ تاریخ کا ایک سیاہ دور بھی تھا جو مسلمانوں پر 1947کو اگست کے مہینے میں گزرا برصغیر سے برطانیہ تو چلا گیا لیکن اس نے ایجنٹ یہاں موجود رکھے جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا کردار ادا کیا وہ لوگ جن کے پا س کچھ نہ تھا
وہ باغات ‘جاگیروں اور فیکڑیوں کے مالک بن گئے جن لوگوں نے انگریزوں کے یے مخبریاں کیں اور ان کے لیے کام کرتے رہے وہ مربعوں ‘جائیدادوں سے نوازے گئے یہی لوگ آج جاگیردار وڈیرے اور زمین دار ہیں یہی لوگ مسلمان کو مسلمان کے خلاف اکسا رہے ہیں اور پاکستان اپنے اسلاف کی قربانیاں بھول چکے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو انگریزوں اور مسلمان دشمنوں کے اشاروں پر دھماکے اور گولیوں کی نذر کر رہے ہیں اگر عوام خبردار ہو جائیں اور اپنے آس پاس کڑی نظر رکھیں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر کسی کے خلا ف ایک گولی بھی چلا یا ایک دھماکہ بھی کر سکیں دراصل انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لیا صدیوں تک مسلمانوں نے مشرق اور مغرب پر حکو مت کی آج یہاں کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے طرز حکومت سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے
کہ یہ ان کے باپ دادا کی جاگیر تھی اور ان کا یہ حق ہے کہ خود تو عیاشیاں کریں دوسرے ملکوں میں محلات تعمیر کریں اور کرپشن کے پیسوں کو دوسرے ملکوں میں جمع کروائیں جہازوں سے نیچے نہ اتریں بڑ ی بڑی گاڑیاں استعمال کریں اور پاکستانیوں کو دوسرے نمبر کا شہری بنا ڈالیں1947کو دہلی،پنجاب ، بمبئی، بہار میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں لیکن آج کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں جن لوگوں نے مسلمانوں کا خون بہایا ہمارے حکمران سیاستدان ان کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھا رہے ہیں
اور ان کو تحائف سے نوازا جاتا ہے یہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے جو یہاں کے حکمرانوں نے اپنایا ہوا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو بھول گئے یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا پاکستانی عوام بھی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو بھول گئے؟ذرا سوچئیے ہمارے حکمران دراصل سیاستدان نہیں بلکہ سیاست کار ہیں اور اپنے وطن پاکستان کے ساتھ سیاستکاری کر رہے ہیںآئیے
اپنے کردار عمل سے پاکستان کو لاالہ اللہ کی بنیاد پر استوار کریں تحفظ نظریہ پاکستان کے لیے اپنا اپنا فرض نبھائیں تکمیل پاکستان کے لیے اخوت و اتحاد کا مظاہرہ کریں استحکام پاکستان کے لیے ہرقسم کی قربانی کا عہد کریں