101

بیول میں مفاداتی سیاست کا راج‘ کاشف حسین کی ڈائری

وقت بادشاہ ہے اور کائنات کی ہر شے اس کی رعایا۔لیکن وقت کی کوئی شکل ہے اور نہ ہی وجود۔اس کے باوجود یہی وقت روپ بدل بدل کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے جس کی گردش انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے وقت کسی کے لیے مہربان اور مخلص دوست بنتا ہے تو کسی کے لیے سفاک دشمن کا کردار ادا کرتا ہے وقت ایسا سنگدل ہے کہ کسی کی بھی پروا نہیں کرتا لیکن انسان سچ سے غافل رہتا ہے۔وقت سے سبق بھی بہت کم لوگ سیکھ پاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ سیکھنا بھی نہیں چاہتے جیسے گوجر خان میں مسلم لیگی زعماء باربار وقت کی مار کھا کر بھی کچھ سیکھنے پر آمادہ نہیں۔2018 کے الیکشن میں قومی۔وصوبائی نشتوں پر لیگ کی شکست۔2013 کے الیکشن میں مقامی لیگی رہنماؤں کے ٹکٹ پر پیدا ہونے والے اختلاف کا شاخسانہ تھی۔جب ٹکٹ نہ ملنے پر لیگی رہنماء چوہدری رہاض کی جانب سے آرائیں برادری کی ایک میٹنگ میں ذاتی مفادات اور انا کی تسکین کے لیے پارٹی ٹکٹ ہولڈر چوہدری افتخار وارثی اور راجہ جاوید اخلاص کی کھل کر مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے برادری کو قومی سطح پر پیپلز پارٹی اور صوبائی نشست پر تحریک انصاف کو ووٹ کرنے کا مشورہ دیا نظریاتی سیاست کے دعوے دار چوہدری ریاض کے سارے نظریات مفاد پرستی کی آگ میں جل کر راکھ ہوئے تاہم وہ کھلی مخالفت کے باوجود اپنی جماعت کی کامیابی نہ روک سکے مفادات کے گرد گھومتی پاکستانی سیاست میں جماعت کو صرف پارٹی کے نظریاتی ووٹ بٹوارنے کی حد تک ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پارٹی ڈسپلن نام کی کوئی چیز کسی جماعت میں دیکھائی نہیں پڑتی۔پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر لگنے والے گھاو سے اٹھتی ٹیسیں بلدیاتی الیکشن کے دوران بھی بے چین کیے رہیں جس کے باعث یوسی بیول میں چوہدری ریاض اور ان کے ہمنواؤں نے ایک بار پھر لیگی پینل کی مخالفت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے پینل کو سپورٹ کیا تاہم وہ اس بار بھی پارٹی پینل کو شکست سے دوچار نہ کر سکے۔اسی طرح یوسی سوئیں چیمیاں میں ن لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشت پر براجمان چویدری افتخار وارثی نے بھی پارٹی پینل کی مخالفت کرتے ہوئے آزاد پینل کی حمایت کی تاہم وہ بھی پارٹی کوشکست سے دوچار کرنے میِں ناکام رہے۔وقت نے دونوں گروپوں کے لیے سفاک دشمن کا کردار ادا کیا۔وقت گذر گیا۔الیکشن 2018 میں وقت روپ بدل کر ایک پھر تاریخ دوہرانے سامنے آکھڑا ہوا۔بووجہ چوہدری افتخار وارثی نے ٹکٹ کے لیے اپلائی نہیں کیا اور کھلا راستہ ملنے پر ٹکٹ چوہدری ریاض کے حصے آیا جو 2013 کے الیکشن میں پارٹی کی پشت میں چھرا گھونپ چکے تھے۔چوہدری افتخار وارثی کے لیے تین راستے تھے پارٹی سے وفاداری قائم رکھتے ہوئے پارٹی فیصلے پرامین کہتے اور پارٹی کے لیے کام کرتے۔دوسرا راستہ غیر جانبداری کا تھا کہ خاموش ہو۔کر بیٹھے رہتے۔تیسرا راستہ بدلہ چکانے کا راستہ تھا۔اور انہوں نے توقع کے مطابق بدلے کی سیاست کو ترجع دیے کر حساب برابر کیا اور تاریخ کو دھراتے ہوئے پیپلز پارٹی اور تحریک کو بالترتیب قومی و صوبائی نشتوں پر حمایت فراہم کی وقت ان پر مہربان رہا اور چوہدری افتخار وارثی اپنی جماعت کو شکست دلوانے میں کامیاب رہے۔مفادات کی سیاست جیت گئی نظریات شکست کھا گئے۔اب ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن کا رن پڑنے کو ہے دونوں گروپوں کی سرد جنگ بلندیوں کو چھو رہی ہے اور راجہ جاوید اخلاص بھی اس میں کسی حد تک اپنا حصہ ڈال رہے ہیں شنید یہ ہے اس بار بھی ایک دھڑا پارٹی ٹکٹ پر اور دوسری مخالف جماعتوں سے ملکر الیکشن میں جانے گا۔اس سے جماعت تو شکست کھائے گی لیکن دونوں کی انا جیت جائے گی۔گوجر خان خصوصاً بیول کے عوام ان کے نئے ڈارمے اور نئے انجام کے شدت سے منتظر ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں