کاشف حسین/ہماری انفرادی اور اجتماعی معاشرت اورمعیشت میں ہولناک بگاڑ نے جڑیں پکڑ لی ہیں رہبر وچوکیدار اور سرمایہ دار چوری اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ہر طرح صرف غریب افراد ہی نشانہ ہیں ملاوٹ ،جھوٹ بہتان طرازی ۔بداخلاقی اور عدم برادشت کے علاوہ سودپر غریب افراد کو یرغمال بنانے کا مکروہ کاروبار بھی ہماری رگ رگ میںسما چکا ہے ،بیول اور اس کے گرد ونواح میں سودی کاروبار کرنے والے افراد کے خونی شکنجے نے کئی افراد کو زندہ درگور کر رکھا ہے ،ہوس زر نے ہماری سارہ مذہبی اخلاقی اور انسانی اقدارکو بے رحمی سے روند ڈالا ہے ،حرس وطمع نے احساس کو مار ڈالاہے ،کہیں ہم اپنے رویوں سے غضب الٰہی کو دعوت تو نہیں دے رہے بیول میں سود کا بڑھتا کاروبارلمحہ فکریہ ہے ،قوموں کابگاڑ اور زوال جب اپنی حدوں سے گذرنے لگتا تو غیبی لاٹھی حرکت میں آتی ہے ہمیں پناہ مانگنی چاہیے اس وقت سے جب زمین لرزنے اور سمندر ابلنے لگتے ہیں معاشرے انفرادی اکائیوں سے تشکیل پاتے ہیں ہم ذاتی اصلاح کرلیں تو معاشرہ خو دبخود سدھر جائے گا ،انسان کی نیت ہی اس کی بخشش کاپیمانہ ہے کوئی اپنا مال دوسروں پر خرچ کرکے اپنی عاقبت سنوراتا ہے جس کی بیول میں کئی مثالیں موجود ہیں ،کچھ لوگوں کے فلاحی کام سامنے نظر آتے ہیں اور کچھ افرادخاموشی سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ،لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی دولت کو مزید وسعت دینے کے لیے غریب افراد کی مجبوریوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ان کی محدود آمدنی سے بھی محروم کیے ہوئے ہیں ،ایسے لوگ بد نیتی کے حصار میں بند ہیں بیول اور گرد نواح میں ایسے لوگ باکثرت پائے جاتے ہیں جو اپنی دولت کو سود پر اٹھا کر مجبور لوگوں کے محدود وسائل پر قابض ہیں ،ایک باران کے شکنجے میں پھنس جانے والا شخص زندگی کے آخری ایام تک بھی ان سے وصول کردہ رقم کی ادائیگی نہیں کرسکتا اور اس کی ساری زندگی اس رقم کے سود کی ادائیگی میں ہی گزر جاتی ہے اور اصل رقم اپنی جگہ قابل واپس ہی رہتی ہے سود در سود کی نطام مین جکڑ لیے جانے والے والا ہر شخص پیٹ کا جہنم بھرنے کے ساتھ ساتھ اس ماس خور انسان کا سود ادا کرنے کے لیے گھر کا ساز وسامان تک فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ سود خور کسی خونی جونک سے کم نہیں جو دھیرے دھیرے اپنے چنگل میں پھنسے شخص کے جسم سے خون کے آخری قطرے کے ختم ہونے تک خراج وصولتے ہیں جنگ چاہے ہتیاروں کی ہو یا احساسات کی انسان کو اندر سے مار دیتی ہے اور غریب تو ویسے بھی بہت حساس ہوتا ہے ،بے عزتی کے ڈر سے وہ اندر ہی اندر مرتا ہے لیکن اپنے ساتھ ہونےوالے ظلم کی داستان کسی کو سنانے کا روادار نہیں ہوتا ،ہمارے یہاں قانون تو بنتے ہیں لیکن صرف کتابوں میں ددج ہونے کے لیے ،سودی کاروبار کے خلاف بھی قانون تو موجود ہے لیکن صرف کتاب میں….
180