بیورو کریسی سیاسی جماعتوں کی گھر کی باندی بن چکی ہے 193

بیورو کریسی سیاسی جماعتوں کی گھر کی باندی بن چکی ہے

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جنا حؒ نے پاکستا ن کے معرض وجو د میں آنے کے بعد پشاور میں وزراء اور بیورو کریٹس سے مشترکہ خطاب کرتے ہو ئے فرمایا تھا کہ بیو رو کریسی ہما رے ملک کی ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے سیا ستدانو ں اور بیو رو کریٹس کو مل کر پاکستان کی فلا ح و یہو د کے لئے کا م کر نا چا ہیے۔

پا کستا ن کے ابتدائی ایام میں بیورو کریٹس نے اپنی شب و روز محنت سے ثا بت کیا کہ و ہ واقعی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جس کا اندازہ اس با ت سے لگا یا جاسکتا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ملک میں کل 1167انڈین سول سروس افسر تھے ایک سو ایک مسلما ن افسرو ں میں سے پچا نو ے فیصد نے پا کستان میں کام کر نے کی خو اہش کا اظہا ر کیا اس وقت پا کستا ن میں دیگر محکمو ں کے دو سو پا نچ کلا س ون آفس تھے یعنی کل تین سو افسر وں کے کا ندھو ں پر نو زا ئیدہ مملکت کو اپنے پا ؤں پر کھڑا کر نے کی بھاری ذمہ داری کو نبھا یا اور پاکستا ن کو اپنے پا ؤں پر کھڑا کر کے دنیا کو حیرا ن کر دیا۔نئے افسرو ں کی بھر تی کے لیے سنٹر ل پبلک سروس کمیشن تشکیل دیا گیا

columns

1960تک کلا س ون افسرو ں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی جن میں پا نچ سو سی ایس پی تھے 1964 کے ایک سروے کے مطا بق اکتیس سی ایس پی میں سے چو دہ افسروں کے پا س غیر ملکی ڈگریاں تھیں صدر جنرل محمد ایوب خان نے بھی اپنے دور حکومت میں بیورو کریٹس پر بھر پو ر اعتما د کیا انہو ں نے پا کستا ن کی تر قی میں اہم کر دار ادا کر نے و الے تما م ادارو ں پا کستان انڈسٹریل ڈیو یلمنٹ کا ر پو یشن،وپڈا،ایگریکلچر ٖڈیویلمنٹ کا رپو ریشن،پلا ننگ کمیشن آف پا کستان،کر اچی ڈو یلمنٹ اتھا رٹی،سنٹرل ڈیو یلمنٹ اتھا رٹی پا کستا ن انڈسٹریل اینڈ انو سٹمنٹ کارپو ریشن وغیرہ کے سر برا ہا ن بھی سی ایس پی افسر مقرر کئے۔ان ادارو ں کی بدولت پا کستا ن میں بڑے بڑے منصو بے پا یہ تکمیل کو پہنچے۔

سقو ط مشرقی پاکستا ن کے بعد ذو الفقا ر علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بنے انہو ں نے بڑے مشکل حا لا ت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اسکی معیشت کو ترقی دینے کے لئے بہت سی اصلا حا ت کیں۔ذوالفقار علی بھٹو پاکستا ن کی بیو رو کریسی سے اس حد تک نا لا ں تھے کہ ایک مو قع پر انہو ں نے کہا کہ ملک میں کسی بھی ادا رے نے فو جی زندگی کے معیار کو اتنا نہیں گرایا جتنا نو کر شاہی نے گرایا ہے اس نے بر ہمو ں کی ایک ایسی کلا س پیدا کی جن کی امارت پر ستی انتظا م و انصرام پر ایک ایسی کا ری ضرب لگائی گئی کہ اس کے بعد ہم سنبھل نہیں سکے۔ سی ایس پی کلا س کوختم کر کے آل پاکستان یونیفائیڈ گروف بنا دیا گیا ملازمین کے گریڈ ایک سے با ئیس کردئیے گئے۔

گریڈ بائیس کی تنخو اہ گریڈ ایک کی مائل کیا ایسے رولز ترتیب دئیے گئے کہ ان کی رو سے کسی بھی لیول کے افسر کو وجہ بتا ئے بغیر نوکری سے نکالا جاسکتا تھا۔ پا لیسی سازی کا کا م ذہین اعلیٰ تعلیم یا فتہ،پیشہ ور تجر بہ کار اور دیا نتدار بیو رو کریٹس سے لے کر پارٹی کے کا ر کنا ن کے سپر د کر دیا گیا گریڈ سو لہ سے اوپر لیٹرل انٹری کے نا م پرمرٹ کو پس پشت ڈال کر 2676افسر و فا ق میں اور 2200افسر صو بو ں میں بھرتی کئے گئے ان میں سے 1374افسر انتہا ئی اعلیٰ عہدوں پر بھر تی کئے گئے۔

مجو زہ تعداد سے تین گنا زیادہ وفادار افسر سیا سی کا رکنوں کی سفا رش پر بھر تی کئے گئے جب جنرل طیا رہ الحق نے اقتدار پر شب خو ن ما را تو انہو ں نے بیو رو کر یسی پر اعتما د کیا اور اسے اپنے اقتدار کو طو ل دینے کے لئے استعما ل کیا۔ 1990کی دہائی میں ملک میں با ریا ں لگا نے والی سیا سی پا رٹیو ں کا دور شروع ہو ا ان دور میں ڈھو نڈ ڈھو نڈ کر اپنے وفادار بیو رو کریٹس کا اعلیٰ عہدوں پر فا ئز کیا گیا
میرٹ پر ٹرانسفر پو سٹنگ کا خا تمہ کر دیا گیا بیو رو کریٹس بھی اپنی سیٹیں پکی کر نے میں لگ گئے۔ سفارش رشو ت کر پشن اقربا پر وری کا دو ر شروع ہو گیا پر آنے والی حکومت نے بیو رو کر یسی میں اکھا ڑ پچھا ڑ کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ جنرل پر ویز مشرف نے اقتدا ر پر قبضہ کر نے کے بعد رہی سہی کسر بھی نکال دی۔جنرل پرویز مشرف نے ملک کو جو نظام دیا اس نے ریاستی رٹ کی ستیا ناس کر دی لو کل گو رنمنٹ آ رڈیننس 2001کا نفا ذ کر کے کمشنر کا عہدہ سرے سے ہی ختم کر دیا۔ڈپٹی کمشنر کو ڈی سی او بنا کر ضلعی ناظمین کے ما تحت کر دیا گیا۔

بیورو کر یٹس کے عہدوں کے نا م تک تبدیل کر د ئیے گئے اس وقت پو لیس کو ڈی ایم جی سے آزاد کر وانے کے خو اہشمند بہت سے سینئر پولیس وزارت داخلہ میں تعینا ت تھے چنا چہ بعض پو لیس افسرو ں نے اپنا اثر ور سو خ استعمال کر کے پو لیس آرڈر 2002کو نا فذ کر وایا جن سے پی ایس پی کلا س کی دیرینہ خو اہش تو پو ری ہو گئی لیکن پو لیس ما در پدر آزاد ہو گئی بعد میں آنے والی حکو متو ں نے جنرل پرو یز مشرف کے نظام کو لپیٹ کر ڈپٹی کمشنر کا عہدہ تو بحال کر دیا لیکن اس کے اختیارات واپس نہ کئے یوں ڈپٹی کمشنر کا عہد ہ ڈی سی او سے بھی کمزور کر دیا گیا کیو نکہ ڈی سی او کا عہدہ مالی اختیا رات کے با عث کا فی مضبو ط سمجھا جا نے لگا تھا دو سیاسی پا رٹیا ں با ری با ری اقتدار میں آئی ہیں انہیں شاید کمزور ڈی سی اور ساتھ ساتھ مادر پدر آزاد پو لیس فو رس ہی پسند تھی کیو نکہ ان کا ہر جا ئزو نا جا ئزہ کا م بیو رو کر یسی اور پو لیس کر دیتی تھی.

عوام النا س کے مسا ئل حل ہو رہے ہیں یا انہیں ان کا اس سے کو ئی لینا دینا نہیں تھا پھر مقتدرہ نے ان کے متبا دل کے طو ر پر ایک اور سیا سی پا رٹی کو میدان میں اتا ر ا جس نے محمو د خا ن اور بزدار جیسے صو بائی و زرائے اعلیٰ تعینا ت کئے جن کے ادو ار میں عہدوں کی جس طرح بندر با نٹ ہو ئی اس کی ماضی میں کو ئی مثال نہیں ملتی۔جو نئیر،کا م چو رنا اہل اور کر پٹ افسران کو سفا رش پر سینئر پو سٹو ں پر تعینا ت کیا گیا مو جو دہ صورتحا ل یہ ہے کہ بیو رو کریسی سیا سی جما عتو ں کی گھر کی با ندی بن چکی ہے میرٹ کا قتل عام جا ر ی ہے بیو ر و کر یسی کا یہ کلچر بن چکا ہے کہ اچھی اور اہم پو سٹ پر تعینات ہو نے کے لئے ہر جر م استعما ل کیا جا تا ہے

سیا ستدانو ں کی ہا ں میں ہا ں ملاؤں ان کے مفا دات کا تحفظ کر و انہیں بھی عیش کر اؤ اور خود بھی عیش کر و جب اپ گریڈ بیس کی پو سٹ پر گریڈ اٹھا ر ہ کا ڈپٹی کمشنر لگا ئیں گے تو وہ کیا ہر فارم کر ے گا کیا ایک دس سا لہ تجر بہ رکھنے والا افسر بیس سال تجر بہ کے حامل افسر جتنا شعو ر،فہم و فراست دانا ئی اور حکو مت رکھ سکتا ہے اگر گریڈ انیس اور کے افسر نا اہل ہیں تو انہیں ترقی کیوں د ی جا تی ہے؟

انہیں گھر کیو ں بھیج دیتے افسرو ں کا تبا دلہ و تعینا تی کا کا م صو بے کے چیف سیکر ٹری کو کرنا چا ہیے اور پھر انہی سے ان کی کا ر کر دگی کی رپو رٹ لینی چاہیے لیکن یہا ں تو الٹی گنگا بہا ئی جا ری ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے افسران کی کو ئی بھی با ت سننے کو تیا ر نہیں اس انحطا ط،تبا ہی و بر با دی میں سیا ستدانو ں کے ساتھ بیو رو کریٹس بھی بر ابر کے شریک ہیں اور جب تک دونو ں ہو ش کے نا خن نہیں لیتے ریا ستی رٹ بحال کر نا دیو انے کا خو اب ہی رہے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں